مضامین

مسلمانوں کو بھی برابری کا حق ملے پارلیمنٹ میں مولانا محمود مدنی کا خطاب

مسلمانوں کو بھی برابری کا حق ملے
پارلیمنٹ میں مولانا محمود مدنی کا خطاب
نائب صدر جمہوریہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ:
ہمارا حال اے ساقی ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا
تیری محفل اگر اُجڑی تیرا انجام کیا ہوگا
ہمیں تو رنگ گلشن دیکھ کر افسوس ہوتا ہے
سحر ہی کا یہ عالم ہے تو وقت شام کیا ہوگا
اُپ سبھا پتی جی! ہندستان اس وقت Majority and Minority کے سوال میں اُلجھا ہوا ہے۔ ہندستان میں رہنے والی ایک بڑی تعداد ہے، جسے ابھی ملیح آبادی صاحب نے Second Largest Majority قرار دیا، جو بالکل صحیح ہے۔ میں اس بحث کو بہت طویل نہیں کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر اتنی بڑی تعداد محروم رہ جائے گی تو ہمارا ملک کیسے ترقی کرے گا؟ اس کا وکاس کیسے ہوگا اور جو خواب ہم نے اپنی آنکھوں میں سجایا ہے، وہ کیسے پورا ہوگا۔
دیش نے ایک خواب سجایا، اس خواب کو اس وقت تک پورا نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ وہ لوگ جن کی حالت ایجوکیشن میں، اکنامی اور سوشولی بھی میں دلتوں سے زیادہ خراب ہوچکی ہے، اگر ان کے بارے بحث نہیں ہوگی، اگر ان کی ترقی کے لیے کام نہیں ہوں گے۔ یہاں ملک کی بات ہورہی ہے، اگر ملک کو صحیح معنوں میں ترقی دینی ہے تو یہ مسلمانوں کی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں اپنی داہنی طرف والوں سے خاص طور پر معافی مانگتے ہوئے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اب Appeasement کا قصہ ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اگر ملک کو بدامنی سے، فساد سے، بربادی سے بچانا ہے تو اس معاملے پر اس ملک میں بسنے والے سبھی لوگوں کو ایک ہونا پڑے گا کہ ہم کسی کو محروم نہیں رہنے دیں گے۔ چاہے وہ رنگ کی وجہ سے ہو، چاہے وہ نسل کی وجہ سے ہو، چاہے Religion کی وجہ سے ہو، کسی بھی وجہ سے اب کسی کو اس ملک میں محروم نہیں رہنے دیا جائے گا اور تعلیم پر سب کا حق ہوگا۔
محترم صدر نشین! آج جب ایجوکیشن کی بات ہورہی ہے تو تعلیم میں تاریخ کو اور تاریخ میں مسلمانوں کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ میں مسلمان ہوں، اس لیے مسلمان کی بات کہہ رہا ہوں، یہ بات نہیں ہے، لیکن ہمارے مسلمان بچوں کو اور برادرانِ وطن ہندو بھائی بچوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کو آزاد کرانے میں اور اس ملک کو بنانے میں مسلمانوں کا کیا کردار رہا ہے۔ جب اس کا کردار برادرانِ وطن کو معلوم ہوگا تو ان کے دل میں قدرہوگی۔ اور جب مسلمان بچوں کو ان کا کردار معلوم ہوگا تو ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوگا کہ ہاں اسے ہم نے بنایا ہے، یہ ہمارا ملک ہے، ہم اس میں شریک ہیں، ہم اس میں حصہ دار ہیں، ہم پارٹنر ہیں۔ اس سے دونوں طرف سے فائدہ ہے، لیکن پچھلے ۰۶ سالوں سے اس کواگنور کیا جارہا ہے۔ جان بوجھ کر یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کا جو کردار، اس ملک کو آزاد کرانے میں رہا ہے، اس کو نظر انداز کیا جائے۔ ہمیں تاریخ کو درست کرنا چاہیے، خاص کر وہ تاریخ جو بچوں کو نصاب کے ذریعے سے پڑھائی جاتی ہے، اس پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔
محترم صدر نشین صاحب جب تک سب کے لیے Equal Opportunity نہیں ہوگی اور اس Equal Opportunity کے لیے برابر کی حصہ داری کے لیے کوشش نہیں ہوگی تب تک صحیح جمہوریت، صحیح انصاف، صحیح ملک، صحیح قدریں اور صحیح تعمیر نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارا ہندوستان ملٹی کلچرڈ ہے، یہاں گنگا جمنی تہذیب صرف زبان تک ہے یا صرف نعروں تک ہے؟ جب تک انصاف نہیں ہوگا، تب تک وہ تہذیب، تہذیب کہلائے جانے کے قابل نہیں ہوگی۔ جس بات کو ادیب صاحب کہہ رہے تھے میں اس بات کو دوسرے انداز سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اس ملک میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔ ہمارے دستور نے دیا ہے اور ہمارے دستور نے یہ گارنٹی بھی دی ہے کہ کسی کو کسی کے مذہب کے نام پر کوئی خصوصیت نہیں دی جائے گی۔ کسی کو کوئی اسپیشل ٹریٹمنٹ نہیں دیا جائے گا کہ یہ فلاں مذہب کا آدمی ہے، اس لیے اس کو اسپیشل ٹریٹمنٹ دیا جائے۔ جب ہم ریزرویشن کی بات کرتے ہیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ نہیں تم مسلمان ہو، تمھیں اسلام کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ مسلمان کو اسلام کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جانا چاہیے، لیکن اس کی بیک گراؤنڈس کی بنیاد پر ریزرویشن کیوں نہیں دیا جاسکتا دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا اور ہمیں چاہیے بھی نہیں، لیکن اس ملک میں دوسرے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر لگاتار ریزرویشن دیا جارہا ہے یہ کیوں ہورہا ہے؟ اس کے اوپر غور کرنا چاہیے اور اس کو درست کیا جانا چاہیے کہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ملے گا۔ ریزرویشن کی پوری پالیسی کو Revise کیا جانا چاہیے اور Revise کرکے یا تو سب ختم کردینا چاہیے یا ٹھیک سے کرنا چاہیے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور جو لوگ محروم ہوگئے ہیں یا جو پچھڑ گئے ہیں، ان کو برابر میں لاکر کھڑا کرنا چاہیے۔ میں پچھلی حکومت کا شکر گزار ہوں کہ وزیر اعظم ہند نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو ٹیبل کیا، لیکن اس سے بھی زیادہ امپورٹمنٹ رپورٹ جسٹس رنگناتھن مشرا کمیشن کی تھی، اس رپورٹ کو کیوں نہیں پارلیمنٹ میں ٹیبل دیا گیا؟
اس گورنمنٹ کے پاس آگے موقع ہے، چونکہ یہ انھیں کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جبکہ وہ صرف کمیٹی تھی۔ اس نے صرف حالت کو بتایا تھا، کوئی ریمیڈی نہیں دی تھی، جبکہ جسٹس رنگناتھن مشرا کمیشن نے حالت کو بھی بتایا ہے اور ریمیڈ بھی دی ہے۔ اس کو سامنے لایا جانا چاہیے۔ Communal Violence Act لانا چاہیے، جس کا ذکر اس مرتبہ Presidential Address میں نہیں ہے، جو کہ پرانا وعدہ ہے، اس لیے اس وعدے کو پورا کرنا چاہیے۔ ہمیں Environment کے اوپر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہماری ندیاں خراب ہوگئی ہیں۔ پچھلی سرکاروں نے بہت اعلانات کئے ہیں۔ اس سرکار نے بھی پچھلی ٹرم میں ندیوں کو درست کرنے کے لیے اور Environment کو ٹھیک کرنے کے لیے اعلان کیا تھا، لیکن اس پر کچھ عمل نہیں ہوا ہے۔ نوجوانوں کا Motivation ہونا چاہیے۔ نوجوان ہماری Backbone ہے۔ میں نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں، وہ سب نیشنل انٹرسٹ میں ہے، چاہے Equal Opportunity کی بات ہو، چاہے مسلمانوں کو برابر کی حصہ داری دیئے جانے کی بات ہو، ہمیں نوجوانوں کو Motivate کرنا چاہیے۔
محترم! سول ڈیفنس کی جوبات آئی ہے، میں اس سے بالکل متفق ہوں۔ ان کو کام میں لگانا چاہیے، چونکہ بیکاری سے بربادی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے بہت سارے اعلانات کئے جارہے ہیں اور یقینا ہمیں موجودہ وزیر اعظم سے اور ان کی گورنمنٹ سے امید ہے، امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ بے روزگاری کو دور کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جو لوگ Self-employed ہیں، جو اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں، جیسے بنکر ہیں، ہینڈی کرافٹ والے لوگ ہیں، ایسے لاکھوں خاندان ہیں جو اس کام سے جڑے ہوئے ہیں وہ لوگ اپنا کام خود کررہے تھے، گورنمنٹ نے پالیسی بناتے وقت اس کا دھیان نہیں رکھا، جس کی وجہ سے لاکھوں خاندان بیروزگار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس کو درست کیا جانا چاہیے اور جو لوگ اپنے ہاتھ سے اپنی روزی کمانے کی طاقت رکھتے ہیں، اس کے ہاتھ سے روزی روٹی نہیں چھننی چاہیے۔
اسی طرح سے اوقاف کا معاملہ ہے، خالص مسلمانوں کا معاملہ ہے، اوقاف کے معاملے پر دیانتداری کے ساتھ ٹھیک طریقے سے اس کا نیا ایکٹ آنا چاہیے اور اس کو Revise کرکے ٹھیک سے لانا چاہیے۔ انھیں چند الفاظ کے ساتھ ایک بار اور کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں کے اوپر بڑے دہشت گردی کے الزام ہیں۔ جب میں ایئرپورٹ کے پاس سے گزر رہا تھا تو ایک چھوٹا سا بچہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ ماما دیکھو بن لادن جارہا ہے۔ ایسی سچویشن سے ہم لوگ گزر رہے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ:
زمانہ جانتا ہے کس کا دامن چاک کتنا ہے
تیرے بدنام کرنے سے کوئی بدنام کیا ہوگا
تمھارے چاہنے والے مبارک ہوں تمھیں لیکن
جو ہم نے کردیا وہ دوسروں سے کام کم کیا ہوگا
بہت بہت شکریہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close