مضامین

سیکولرزم کے علمبردار مولانا برکت اللہ بھوپالی

حاجی محمد ہارون ایڈوکیٹ

زندہ قوموں کی پہچان ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنے مشاہیر کو فراموش نہیں کرتیں اور ان کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ اس کے مختلف طریقے ہیں۔ اپنے ہیروز کی سالگرہ منانا، ان کے نام پر عمارتیں اور شاہراہیں بنادینا، ان کی خدمات اور کارناموں پر کتابیں لکھنا، ان کے مجسّمے (اسٹیچو) لگانا، ان کے نام سے درسگاہیں (ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ) قائم کرنا، ایشیا خاص کر برصغیر (اُپ مہادیپ) میں اپنے مہاپرشوں کی برسی منانا موت کے اس دن کو منانے کا طریقہ دوسرے براعظموں میں نہیں پایا جاتا کیونکہ وہاں کے لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں لیکن برسی منانے کا ہمارے ملک میں رواج ہے۔ یہاں کے لوگ قوم کے محسنوں کی پیدائش (برتھ ڈے) کو ہی یاد نہیں رکھتے۔ ان کی وفات کے دن کو بھی مناتے ہیں، مگر آج ہم جس عظیم ہستی اور جنگ آزادی کے سچے سپاہی کی یاد میں جمع ہیں یعنی مولانا برکت اللہ بھوپالی، وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے ملک سے باہر رہ کر ہماری تحریک آزادی کو آگے بڑھایا اور اس کی قیادت کی، ہماری پرانی پیڑھی اس جانباز کے کارناموں سے کسی حد تک واقف تھی لیکن آج کی نسل اس محب وطن اور سرفروش رہنما کو نہیں جانتی۔ اس کی خدمات سے متعارف کراینے کا کام سب سے پہلے بھوپال کے ایک مؤرّخ ایم عرفان نے ان پر کتاب لکھ کر کیا۔ اس کے بعد ہمارے شہر کے قاضی علامہ وجدی الحسینی نے بھی مولانا برکت اللہ بھوپالی پر ایک کتاب لکھی۔ برکت اللہ یونیورسٹی سے ان پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی گئی مگر یہ سب علمی اور تحقیقی کام تھے جن کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ موجودہ نسل کو برکت اللہ بھوپالی سے متعارف کرانے کا سہرا مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ کے سر بندھتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں پہلے عزیز قریشی صاحب کی سفارش پر ۴۸۹۱ء میں کانگریس کے ریجنل سیشن کے لیے جو بھوپال میں ہوا تھا، برکت اللہ نگر“ بسایا گیا۔ اسی زمانے میں پرانے شہر کے ممبر اسمبلی رسول احمد صدیقی کی تحریک پر مولانا برکت اللہ بھوپالی کی جائے قیام مولانا آزاد سینٹرل لائبریری عجائب گھر کے میدان میں ایک کمیونٹی ہال برکت اللہ بھون کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو ستمبر ۷۸۹۱ء میں بن کر تیار ہوا اور چیف منسٹر موتی لال وورا نے اس کا رسمی طور پر افتتاح کیا۔ بعد میں آزادی کی ۱۴ویں سالگرہ کے موقع پر ۵۱/ اگست ۸۸۹۱ء کو بحیثیت وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ نے ریاست میں تحریک آزادی سے جڑے عظیم مجاہدوں (مہاپرشوں) خاص طور پر پروفیسر مولانا برکت اللہ بھوپالی کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بھوپال یونیورسٹی کو اس سرفروش مجاہد، بھارت کی پہلی جلاوطن سرکار کے وزیر اعظم کے نام کر کے برکت اللہ یونیورسٹی کردیا۔
کہنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ پروفیسر برکت اللہ بھوپالی کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے جو کام اب تک بھوپال میں ہوئے قابل تحسین و مبارکباد تو ہیں لیکن کافی نہیں۔ مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو مولانا برکت اللہ بھوپالی کی شخصیت اور کارناموں کو داخل نصاب کرنا چاہیے تاکہ ملک کا بچہ بچہ ان سے متعارف ہوسکے۔ مولانا پر ڈاکٹ ٹکٹ جاری کیا جائے، یونیورسٹی ان کے شایانِ شان ایک کتاب مرتب کرا کے مختلف زبانوں میں شائع کرے۔
حضرات! دنیا کی کسی بھی شخصیت کے کارناموں کا اعتراف اس کے کاموں کا بدل یا صلہ نہیں ہوتا بلکہ نیشن کی طرف سے اس کی خدمات کو حقیر خراجِ عقیدت ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو مجھ سے زیادہ اور بہتر طور پر آپ حضرات جانتے ہیں۔
اوپر جو تفصیلات میں نے بیان کیں ان سے آپ واقف ہیں اور ان کی ضرورت بھی سمجھتے ہیں۔ پھر بھی ان کا اعادہ کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ ہم ہندستانی یا بھوپال کے عوام و رہنما اپنے محسنوں کی یادگاریں تو قائم کردیتے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے لیکن اپنے رہبروں اور مخلصوں کے اصول و نظریات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ جہاں تک مولانا برکت اللہ بھوپالی کی فکر و نظر کا تعلق ہے تو میں اس کا ایک خاص پہلو یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں، جو یہ ہے کہ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے آزادی کی جدوجہد میں اپنے دیرینہ ساتھی راجہ مہندر پرتاپ کی قیادت میں یکم دسمبر ۵۱۹۱ء میں ہندستان کی جس پہلی ”جلاوطن حکومت“ کی بنیاد رکھی یا دوسرے الفاظ میں جن اصول و نظریات کو اپنایا وہ اتنے کارگر اور وقت کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوئے کہ تیس برس بعد آزاد بھارت کی جو سرکار بنی اس کے اصول و نظریات بھی وہی قرار پائے اور آج جب ملک کے سیکولر نظام اور جمہوریت کے تجربہ کو ۸۵ برس ہوگئے ہیں تو ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔
آج ہم اپنے عظیم رہنما اور سیکولرزم کے سچے علمبردار راجہ مہندر پرتاپ اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کی یاد میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس کے موقع پر یہاں جمع ہوئے ہیں تو ہمیں اس سچائی پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ آزادی کے ۸۵ سال کے دوران ملک میں سیکولرزم کی اساس کیوں کمزور ہوئی اور قوم کا وہ کیریکٹر کیوں باقی نہیں رہا، جس کے سہارے ہمارے پرکھوں نے زبردست قربانیاں دیں اور تیاگ کی نئی مثالیں قائم کر کے آزادی حاصل کی لیکن اس کے بدلہ میں کچھ نہیں چاہا۔ انھوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں تک نچھاور کردیں یہاں تک کہ آج ہم ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ایک بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، اسی طرح دیش کو بچا کر رکھنے اور اس کو آگے بڑھانے کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ قیمت قوم کو دیش کے لوگوں کو اپنی صلاحیت و کردار سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ آزادی کی بجا طور پر مستحق ہے اور اس میں آزاد قوم کی تمام صفات اور خوبیاں موجود ہیں۔nn
(برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال کے زیر اہتمام عظیم مجاہد آزادی راجہ مہندر پرتاپ اور پروفیسر مولانا برکت اللہ بھوپالی مرحوم کی جدوجہد آزادی اور اس دور میں اس کی اہمیت کے عنوان پر عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close