مضامین

تقسیم برصغیر دلوں کا بٹوارہ نہیں

پروفیسر طاہر محمود

۵۱/اگست ۷۴۹۱ء کیا عجیب و غریب دن تھا۔ ہنسایا بھی رُلایا بھی، خوشیاں بھی لایا غم بھی، بہلابھی گیا تڑپا بھی گیا، شبنم بھی برسائی شعلے بھی بھڑکائے۔ یہ وہ دن تھا جب برصغیر انگریزوں کی ساڑھے تین سو سالہ غلامی سے آزاد تو ہوا، مگر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر۔ سابق غیر ملکی حکمراں تخت و تاج چھوڑ تو گئے لیکن اس کی پاداش میں جاتے جاتے مادرِ وطن کے سینے پر آرا چلا گئے، جو ”سونے کی چڑیا“ ہاتھ سے نکل رہی تھی اس کے پر بری طرح کترگئے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے آزادیئ ہند ایکٹ ۷۴۹۱ء پاس کرکے انڈیا بنایا، پاسکتان بنایا اور قریب چار سو چھوٹی بڑی ریاستوں کو ان میں سے کسی ایک میں شامل ہوجانے یا آزاد رہنے کا پروانہ تھما دیا۔ آبادی کے تبادلے کے پلان بنے۔ خون خرابے اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ گھر بٹے خاندان بٹے، خون کے رشتوں کے درمیان سیاسی سرحدوں کی خندقیں کھد گئی، بے لوث دوستوں کی محبتیں ملکی اور غیر ملکی خانوں میں بٹ گئیں۔ کل تک جو اپنے گھروں کے مکین تھے اچانک سابق متحدہ ہندستان کے الگ الگ حصوں میں پناہ گزین بن گئے، شرنارتھی یا مہاجر قرار پائے۔ ماں باپ ادھر جغرافیہ بٹا،قومی شاہراہیں بند ہوئیں۔ بنگال اپنی پرانی تاریخ دہراکر ایک بار پھر بٹا، پنجاب سہ آب اور دو آب بنا۔ تاریخ تقسیم ہوئی، تاریخی ورثے بٹے، زیارت گاہیں منقسم ہوئیں۔ کشمیر جنت نشان آدھا اِدھر آدھا اُدھر، شاہجہاں اور اس کا تاج محل اِدھر جہانگیر اور اس کا شالمیار باغ اُدھر، اجمیر اِدھر ننکانہ صاحب اُدھر، علی گڑھ کی مادر درسگاہ اِدھر لاہور کا گلشن علمی اُدھر۔ زبانیں بھی تقسیم ہوئیں، اہل زبان بھی، استادان ماضی و حال بھی۔ شعرو سخن کے عظیم ترین ناموں میں غالبؔ اِدھر اقبالؔ اُدھر، ٹیگور اِدھر نذر الاسلام اُدھر۔
یہ سب کچھ ٹالا جاسکتا تھا، قیامت کو آنے سے روکا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ کیوں نہیں ہوا یہ غیر جانبدار مؤرخوں سے پوچھئے، ان حیران و پشیمان بزرگان وقت سے پوچھئے جواب تقسیم کو غلطی مانتے ہیں، مولانا آزادؔ کی خودنوشت کے ان صفحات سے پوچھئے جو ان کی وفات کے تیس سال بعد منظرِ عام پر آئے۔ کچھ لوگ جلدی میں تھے اور مزید انتظار کی تاب نہیں رکھتے تھے۔ کچھ لوگ اعلیٰ ترین عہدوں کے متمنی تھے، دوسرے درجے کی کوئی چیز انھیں قبول نہیں تھی۔ ماضی کی راکھ کو کریدنا اور تقسیم وطن کی اصل ذمہ داری متعین کرنا ظاہر ہے کہ اب تضیع اوقات ہی ہے۔ جو کچھ مقسوم تھا بہرحال ہوکر رہا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ گھر سے بے گھر ہوئے۔ مادرِ وطن پر ”ایک نہ شددوشد“ کی مثل لاگوہوئی۔ اور راتوں رات مصنوعی سرحدیں بن گئیں۔ایک ملک اِدھر، ایک اُدھر۔ دونوں کی اپنی اپنی دستور ساز اسمبلیاں، اپنے اپنے رہنمایان مقتدر، اپنے اپنے بابائے قوم۔
ادھر کا حال دیکھئے تو جس بابائے قوم نے سابرمتی کا فقیر بن کر ساری زندگی آزادی کی جدوجہد میں گزار دی تھی اسے اس کی روزانہ کی عبادت گاہ کے اندر ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس پار نظر ڈالیے تو وہاں کے بابائے قوم نے بھی جلد ہی ملک عدم کی راہ لی۔ اِدھر تو قسمت نے ساتھ دیا اور دوسرے عظیم ترین رہنما نے مزید ۷۱ سال زندہ رہ کر جمہوریت کو استحکام بخش دیا مگر اُس پار ایسا نہیں ہوا اور دوسرے نمبر کے رہنما کو بھی جلد ہی شہید کردیا گیا۔ چنانچہ نوزائیدہ ملک میں جمہوریت قائم نہ ہوسکی اور بار بار فوج کو کمان سنبھالنی پڑی۔ دستور اس طرف تو دو سال میں بن کر جلد ہی نافذ بھی ہوگیا مگر ادھر پورے نوبرسوں بعد بنا اور بار بار معطل ہوا۔ یہاں تو اکثریتی مذہب کو دستوری حیثیت دیے جانے کے مطالبے کو ٹھکراکر صاحبان فہم و دانش نے مذہبی غیر جانبداری کے اصول پر دستور بنالیا، مگر ادھر وہاں کے بابائے قوم کی طرف سے دستور ساز اسمبلی میں مذہبی غیر جانبداری کے اعلان کے اعلان کے باوجود شدت پسند مذہبی حکومت قائم کرلی گئی۔ پھر مصنوعی سرحدوں کے دونوں طرف شکوک و شبہات اور آپسی غلط فہمیوں کا دور دورہ ہوا اور دونوں ملک بار بار جنگ کی آگ میں کودے۔ میدانِ جنگ میں خون کے رشتے آمنے سامنے ہوئے، راستے مسدود ہوئے۔ حیران و پریشان لوگ قریبی اعزا کے دُکھ سکھ میں شریک ہونے کی خاطر دوسرے دور افتاد ملکوں کے راستے سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ پھر اقوام عالم کی چشم حیرت نے دو قومی نظریہ کو جس کی بنیاد پر ایک ملک دو ملک بنے تھے بتدریج ناکام ہوتے دیکھا۔ نئے ملک کے ایک دوسرے سیکڑوں میل دور واقع دو الگ الگ حصّے زیادہ دن شیر و شکر نہ رہ سکے۔ پہلی تقسیم کو ابھی چوتھائی صدی پوری نہیں ہوئی تھی کہ باضابطہ علیحدگی ہوئی اور ایک تیسرا ملک بھی بن گیا۔ یہ تیسرا ملک بنانے میں اگرچہ سرحد کے اس پار کی پوری اعانت شامل تھی پھر بھی مقامی حالات سے نالاں ہوکر جو لوگ اس موقع کو غنیمت جان کر ادھر بھاگ آئے تھے ان ”غیر ملکیوں“ کی موجودگی کا رونا رویا گیا، بلکہ اب تک رویا جارہا ہے جس کی زد میں وقتاً فوقتاً یہاں کے اصل باشندے بھی آجاتے ہیں۔
اٹھاون سال کی اس تقسیم اور بٹوارے، آپسی رنجشوں اور چپقلشوں، لڑائی جھگڑوں سے شہریوں کے کس طبقے کو کیا مل گیا؟ سیاسی اغراض کے پجاریوں اور ذاتی مفادات کے متلاشیوں کے علاوہ کس کا کیا بھلا ہوا، دین اسلام کا کتنا بول بالا ہوا؟ ۸۱/اگست کا دن آج پھر لمحہئ فکر لے کر آیا ہے۔ ماضی کا متحدہ برصغیر آج تین آزاد اور مقتدر ملکوں کا مجموعہ ہے۔ ایک مستند عالمی ادارے کے تازہ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق برصغیر میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی چالیس کروڑ ہے، جواب تین ملکوں میں منقسم ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مسلمان آج بھی ہندستان میں، پھر پاکستان میں اور اس کے بعد بنگلہ دیش میں ہیں۔ ہندستان کے مسلمانوں میں یا تو وہ سن رسیدہ لوگ ہیں جنھوں نے تقسیم ملک کو مطلق ناپسند کرتے ہوئے بعد تقسیم اپنی مکمل اور آزادانہ مرضی سے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، یا وہ نسبتاً کم عمر لوگ جو ۷۴۹۱ء کے بعد آزاد ہندستان کی سرزمین میں پیدا ہوئے۔ یہ سب کے سب خالصتاً ہندستانی ہیں، اپنے ملک کے وفادار ہی نہیں بلکہ عاشق زار شہری۔ بے شک انھیں مسائل کا سامنا ہے لیکن ان کا حل انھیں یہاں کے دستور و قوانین کے تحت ہی چاہیے۔ پاکستانی مسلمانوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا برصغیر کی تقسیم میں کوئی رول نہیں تھا اور جن کی پیدائش ۷۴۹۱ء کے بعد پاکستان ہی میں ہوئی۔ عام تاثر کے برعکس پاکستان میں آج بھی غیر مسلموں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہے جن میں سپریم کورٹ کے ایک ہندوجج، وفاقی کابینہ میں ایک ہندو وزیر اور تجارت وکاروبار میں لگے بہت سے خوشحال لوگ شامل ہیں۔ بنگلہ دیش میں غیر مسلموں کی تعداد بارہ فیصد سے زائد ہے۔ اس طرح ماضی کے غیر منقسم ہندستان کے تمام بڑے چھوٹے مذہبی فرقے تینوں ملکوں میں اب بھی موجود ہیں۔ بے شک کہیں کوئی غالب ہے کہیں کوئی، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تینوں جگہ وہی ہندنژاد لوگ، وہی روایات، وہی ثقافت، وہی زبانیں، وہی عرف و عادات۔ تو پھر یہ جھگڑے فساد، یہ سیاسی اختلافات، یہ ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ، تابکے؟ منقسم کشمیر کے لوگ کب تک خون کی ندیوں میں غوطے لگاتے رہیں گے؟ اپنے سابق غیر منقسم وطن کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں اعزا و دوستوں کی خوشیوں و غم میں شریک ہونے یا علمی و ادبی پروگراموں میں شرکت کے لیے جانے والے کب تک چوروں کی طرح مقامی تھانوں میں حاضری اور وہاں کاغذی کارروائی کے لیے رشوت دیتے رہیں گے؟ تاریخ کی گھڑی الٹی چلاکر زبردستی بنائی گئی، سرحدوں کو پاٹا تو نہیں جاسکتا، مگر عوام کو شیر و شکر ہونے دینے میں رکاوٹیں کیوں ڈالی جارہی ہیں اور کب تک ڈالی جاتی رہیں گی؟ یورپ میں دونوں جرمنی اور مشرقِ وسطیٰ میں دونوں یمن غیروں کی تھوپی ہوئی برسوں کی مصنوعی تقسیموں کو آخرکار یکلخت ختم کرکے پھر سے ایک ہوسکتے ہیں تو ہمارے تینوں ملک کیا اپنی اپنی الگ شناخت قائم رکھتے ہوئے تینوں جگہ کے عوام کے قدرتی رشتے بھی بحال نہیں کرسکتے؟ یہ پاسپورٹ اور ویزے کی صعوبتیں، صرف مخصوص شہروں میں جانے کی اجازت، جہاں نزول کیا وہیں سے خروج کروکاجناتی حکم، کتابوں کی آمدورفت اور فلموں کی نمائش پر پابندی، یہ سب آخر کیا ہے اور کب تک چلے گا؟ یورپ کے لوگ تو وہاں کے مختلف ملکوں میں، جوکہ کبھی بھی ایک نہیں تھے، بلاقانونی روک ٹوک ایک ہی مشترک کرنسی لے کر بہ اطمینان و آسائش دندناتے پھریں اور ہمارے تینوں ملکوں کے لوگ، جو کبھی ایک ہی عظیم ملک کے شہری تھے، ایک دوسرے کے یہاں ہر طرح کی قانونی بندشیں جھیلیں، زرمبادلہ کے لیے بینکوں اور مہاجنوں کی دکانوں کے چکر لگاتے پھریں، سرکاری اہلکاروں کی مشکوک نظریں اور اکثر بدزبانیاں برداشت کریں۔ آخر کیوں اور کب تک؟
یہ سب کچھ ختم ہوسکتا ہے، حالات بدل سکتے ہیں، انسانی رشتے پوری طرح بحال ہوسکتے ہیں، سیاست پر انسانیت کی فتح ہوسکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کو زور زبردستی سے دلوں کے بٹوارے پر محمول نہ کیا جائے، ماضی کی راکھ نہ کریدکر آگے کی طرف دیکھا جائے، اہلِ سیاست اپنی آپسی بداعتمادیوں کا عوام کو شکار نہ ہونے دیں۔ پیش رفت ہورہی ہے اس جانب، اور سیاسی خندقوں کو پاٹنے کی شروعات کرنے والوں کے نام مستقبل کا مورخ بے شک زریں حروف میں لکھے گا۔ مگر تبدیلیئ حالات کی رفتار بہت سست ہے۔ ساتھ ہی ہر وقت یہ خدشہ بھی لگا رہتا ہے کہ کوئی خود ساختہ سیاسی مجبوری، آپسی بے اعتمادی کا کوئی لمحہ، اہل سیاست کی زبانوں پر آئی کوئی دل آزادی والی بات کہیں خوشگوار ہوتے حالات کا دھارا پھر پیچھے کی طرف نہ موڑ دے۔ خدا کرے کہ ہمارے عزیز اور مشترک برصغیری وطن کے تینوں ملکوں کے امن پسند اور بامروت عوام اب شاطران سیاست کو ایسا نہ کرنے دیں۔ یاد رکھیں کہ لاہور کی جامع مسجد میں محو استراحت علامہ اقبالؔ وہی عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے غیر منقسم وطن کو ”سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا“ کا نغمہ دیا تھا اور پاکستان کے قومی ترانے ”پاک سرزمین شادباد“ کے خالق ہندستانی شہر جالندھر کی دین تھے۔ سردار جعفری مرحوم کا یہ پیغام دلوں میں بسالیا جائے کہ:
تم آؤ گلشن لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی فضاؤں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
نوٹ:‌اعداد کو الٹ کر پڑھا جائے. مثلا 51 کو 15.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close