اہم خبریں

مولانا حسرت علی موہانی ، جنھوںنے سب سے پہلے مکمل آزادی ہند کا مطالبہ کیا

عادل صدیقی

مولانا حسرت موہانی

ہندستان ۷۴۹۱ء میں آزاد ہوا اور ۰۵۹۱ء میں ہندستان کے آئین کا نفاذ ہوا۔ یوں تو اس آئین کی تیاری میں کئی سال لگے اور اس کے مسودے پر ۸۴۹۱ء سے ہی غوروخوض شروع ہوگیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی ۲/دسمبر ۸۴۹۱ء میں آئین کی ترتیب و تشکیل کے حوالے سے غور کر رہی تھی۔ آئین ساز اسمبلی کے نائب صدر ڈاکٹر ایچ سی مکھر جی نے چودھری رنبیر کی تقریر کے اختتام پر اگلے مقرر کو اس موضوع پر بولنے کے لیے آواز دی، یہ تھے مولانا حسرت موہانی۔ آپ کا نام سن کر ممبروں نے تالیاں بجا کر آپ کا خیرمقدم کیا اور ڈاکٹر مکھرجی نے کہا کہ:
”مجھے یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ ہمارے ارکان مولانا حسرت موہانی کی خدمات کو ابھی بھی یاد رکھتے ہیں۔ یقینا آپ کی ذات گرامی وہ ہے جس نے مادرِ وطن ہندستان کی کامل آزادی کا سب سے پہلے مطالبہ کیا تھا اور آزادیئ کامل کا یہ مطالبہ وطن کو آزاد کرانے میں خشت اوّل کی اہمیت رکھتا ہے۔“
چنانچہ مولانا حسرت موہانی سادہ کپڑوں میں ریش بزرگ کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لائے اور اپنی تقریر سے نوازا۔ آپ نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ ان کو ڈاکٹر امبیڈکر کے مسودہئ آئین کی کتنی باتیں ناپسند ہیں جبکہ ان کا زور اس بات پر تھا کہ آزاد ہندستان کا آئین تیار کرنے کے لیے مخلوط رائے دہندگی اور فرقہ پرست پارٹیوں کی بجائے سیکولر پارٹیوں کے توسط سے انتخابات کرائے جائیں، مگر مولانا کا یہ مطالبہ سب کو منظور نہ تھا لیکن مولانا حسرت موہانی نے اپنے موقف پر بدستور اصرار جاری رکھا کیونکہ حق بات سے گریز کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
حسرت موہانی کا پورا نام سیّد فضل الحسن تھا۔ آپ ۰۸۸۱ء (۸۹۲۱ھ) میں قصبہ موہان، ضلع اُناؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے سن پیدائش میں اختلاف رائے ہے۔ حسرت موہانی نے اس سلسلے میں اپنے قلم سے کچھ نہیں لکھا۔ ڈکشنری آف نیشنل بائیوگرافی کی جلد دوم میں مولانا کا سن پیدائش ۸۷۸۱ء ہے۔ پاکستان سے ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام ہے ”مسلمانوں کی سیاسی تنظیم“، اس کتاب میں مولانا کا سن پیدائش ۳۷۸۱ء ہے۔ ڈاکٹر احمد لاری ۰۸۸۱ء کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ۳۰۹۱ء میں آپ کے خاندان کی تعلیم یافتہ خاتون نشاط النساء سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپ نے ۳۰۹۱ء میں جولائی کے مہینے سے ”اُردوئے معلی“ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا۔ یہ ادبی اور سیاسی نوعیت کا ایک رسالہ تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو شروع سے ہی سیاست سے دلچسپی رہی ہے۔ ۴۰۹۱ء میں دسمبر کے مہینے میں کانگریس کا بیسواں اجلاس بمبئی میں ہوا۔ اس کی صدارت سر ہنری کاٹن نے کی۔ اس میں مولانا بحیثیت ڈیلی گیٹ شریک ہوئے۔ دسمبر ۵۰۹۱ء میں کانگریس کا اکیسواں اجلاس بنارس میں ہوا، اس کی صدارت ”گوپال کرشن گوکھلے“ نے کی۔ اس میں بھی مولانا حسرت موہانی شریک تھے۔ ۶۰۹۱ء کے دسمبر کے مہینے میں دادابھائی نوروجی کی صدارت میں کلکتہ میں کانگریس کا اجلاس ہوا اور اس میں بھی آپ نے بحیثیت ڈیلی گیٹ شرکت کی۔
۸۰۹۱ء میں ”اُردوئے معلی“ میں اپریل کے شمارے میں ایک مضمون ”مصر میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کی وجہ سے علی گڑھ میں مولانا کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ عدالت نے دو سال قید سخت اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ ہائی کورٹ نے قید کی سزا ایک سال گھٹا دی مگر جرمانہ بدستور جوں کا توں رہا۔ فیصلے کی اس تاریخ سے قید سخت کا آغاز ہوا۔ ۹۱/جون ۹۰۹۱ء کو قید کی مدت سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے ہی مولانا کو رہا کردیا گیا۔ اکتوبر ۹۰۹۱ء سے ”اُردوئے معلی“ کی دوبارہ سے اشاعت شروع ہوئی۔ ۹۱/ مئی ۳۱۹۱ء کو ”اُردوئے معلی“ کی اشاعت بند کرنی پڑی کیونکہ اس سے تین ہزار روپے کی ضمانت مانگی گئی تھی جو یہ جمع نہ کراسکا۔ ۸/اپریل ۶۱۹۱ء کو مسلم یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی منعقدہ لکھنؤ میں قیامِ یونیورسٹی کے سلسلے میں حکومت کی شرائط کی کھل کر مخالفت کی اور ۳۱/اپریل کو قانون نظربندی کے تحت علی گڑھ میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا اور ۹۱/اپریل کو علی گڑھ سے للت پور کی جیل میں منتقل کردیا گیا۔
اس طرح سے مولانا حسرت موہانی کی زندگی انگریزوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی اور ان کا زیادہ وقت جیلوں میں گزرا۔ کانگریس میں حسرت اور مسٹر جناح کے ورود سے پہلے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں کانگریس غیرمحسوس طور پر انتہاپسند اور اعتدال پسند گروہوں میں بٹنے لگی تھی، انتہاپسند گروپ کے لیڈر تلک تھے، مولانا حسرت نے ان کو طالب علمی کے زمانے میں ہی اپنا گرو بنا لیا تھا۔ اعتدال پسندوں کی قیادت گوپال کرشن گوکھلے کے ہاتھوں میں تھی۔ مسٹر جناح نے ان کو اپنا گرو تسلیم کر رکھا تھا۔ تقسیم بنگال کے بعد ہندستانی سیاست میں طوفان آگیا۔ تقسیم بنگال کی سخت مخالفت کی گئی جن میں مسلمان پیش پیش تھے۔ سودیشی تحریک کا فروغ اس تحریک کا مرہونِ منّت ہے۔ تقسیم بنگال کے نتیجے میں پرتشدد مظاہروں اور کانگریس پر انتہاپسندوں کے غلبے کی وجہ سے برطانوی حکومت کے اوسان خطا ہوگئے۔ ہندستان کی جدوجہد آزادی کی سیاسی قربانیوں اور ملک کی جدوجہد آزادی میں ان کی خدمات کو سمجھنے کی خاطر اس کا تفصیلی مطالعہ بیحد ضروری ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری تاریخی کتابوں سے یہ سب تفاصیل حذف کردی گئی ہیں۔ آج کے دَور میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا برکت اللہ بھوپالیؒ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانیؒ اور دیگر ہزارہا اکابرین کے ناموں تک سے ہم واقف نہیں، اس وجہ سے مسلمانوں کی وہ قربانیاں جو انھوں نے قوم و وطن کی خاطر دیں، کوئی نہیں جانتا۔ آج مولانا محمد علی جوہر کی تحریکات اور قربانیوں کا ہم کو مطلق علم نہیں، ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی لانے کے لیے ان سب کا مطالعہ بیحد ضروری ہے۔
مولانا حسرت موہانی کو قومی یکجہتی کی خشت اوّل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آپ نے اپنی غزلوں، نظموں اور ادبی تحریروں میں شری کرشن کا جس عقیدت کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے شیخ الہند کے طرز پر وہ بھی ہندو-مسلم اتحاد کے حامی رہے ہیں۔ کانپور سے شائع ہونے والے رسالہ ”زمانہ“ کے اکتوبر ۳۲۹۱ء کے شمارے میں حسرت موہانی کی ایک غزل میں شری کرشن کا ذکر ملتا ہے۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
آنکھوں میں نور جلوہئ بے کیف و کم ہے خاص
جب سے نظر پہ ان کی نگاہِ کرم ہے خاص
کچھ ہم کو بھی عطا ہو کہ اے حضرتِ کرشن
اقلیمِ عشق آپ کے زیر قدم ہے خاص
حسرتؔ کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری
سنتے ہیں عاشقوں پہ تمھارا کرم ہے خاص
یہ اشعار اکبرؔ الٰہ آبادی نے سنے تو آپ نے مولانا حسرتؔ موہانی کو ایک منظوم مراسلہ تحریر کیا، لکھتے ہیں:
تھا دل حسرتؔؔ بھرا ارمان میں
ہم نے لکھ بھیجا انھیں موہان میں
بھائی صاحب رکھ دو تم اپنا قلم
ہاتھ میں لو اب تجارت کا علم
ہو چکی غیروں سے خویشی کی بہار
بس دِکھاؤ اب سودیشی کی بہار
کام کر اُٹھو چڑھاؤ آستیں
لا یضیع اللہ اجر المحسنین
اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا حسرتؔ موہانی نے اکبرؔ الٰہ آبادی کے کلام سے بھی استفادہ کیا اور اس کے بعد وہ گاندھی جی کے ساتھ مل کر سودیشی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے دل و جان سے لگ گئے۔ سودیشی تحریک کی کامیابی کا راز اس امر میں پوشیدہ تھا کہ نظر کو خیرہ کرنے والی تہذیب حاضر کی چمک دمک سے مرعوب نہ ہوکر یوروپ کی ذہنی برتری کے جال میں خود کو نہ پھنسایا جائے۔ مولانا شبلی نعمانی نے مولانا حسرتؔ موہانی کے بارے میں لکھا کہ ”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔“
مختصراً یہ کہ مولانا حسرتؔ موہانی نہ صرف مجاہد آزادی تھے بلکہ انھوں نے ادب اور بالخصوص شاعری کے ذریعے بھی قدم کو بیدار کرنے کی شب و روز کوشش کی:
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

نوٹ: اعداد کو الٹ کر پڑھا جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close