جمعیت علماء هند

جمہوری آئین کی تشکیل میں چند مسلم مجاہدین آزادی

اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآپ کو’’قائدِ ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پرآزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔ (24) محمد اسماعیل خان(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن(سیوہاروی)(26) محمد طاہر(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوب جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔(28) مرزا محمد افضل بیگ(29) مولانا محمد سعید مسعودی(30)نذیر الدین احمد(31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف مجاہدِآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندوستان کے پہلے وزیرمواصلات)(32) راغب احسن(33) سید جعفر امام(34) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔(35)تجمل حسین۔( ازمضمون:قانون ساز مجلس اور مسلم ممبران)
یہ ان عظیم لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے قانون سازی میں ترجمانی کی اور بعض تو وہ ہیں جنہوں نے بھرپور انداز میں ملک کوجمہوری بنانے اور مسلمانوں کے حقوق وتحفظات کے لئے ناقابل فراموش کردار اداکیا ۔مولاناحسرت موہانی ؒ جو اس کے ایک اہم رکن تھے اور جنہوں نے دستور سازی میں قابل قدر جدوجہد کی ہے اور بڑھ چڑھ کر مناسب ومفید دفعات کے لئے آخر وقت تک لگے رہے۔مولانا حسرت موہانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں کی نسبت تھے ،کے تحفظ کے لئے بھی موثر انداز میں اظہار کیا۔چناں چہ انہوں نے دستورسازی کے موقع پرتمام مذاہب کے پرسنل لا اور بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لامیں مداخلت کے سلسلہ میں کہاتھا کہ’’میں یہ بتادینا چاہاہوں گا کہ کوئی سیاسی پارٹی یافرقہ پرست پارٹی کو کسی بھی گروپ کے پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔یہ خصوصا مسلمانوں کی نسبت کہتاہوں کہ ان کے پرسنل لا کے تین بنیاد ی اصول ہیں جو مذہب زبان اور کلچر ہیں ۔جن کو انسانوں نے نہیں بنایا ہے ۔ان کا پرسنل لاطلاق ،شادی ،اوروراثت کاقانون قرآن حکیم سے لیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اس میں درج ہے ،اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کرسکتے ہیں تو میں کہوں گا اس کا انجام بے حد نقصان دہ ہوگا۔میں اس ایوان میں آواز لگاکر کہہ رہاہوں کہ وہ مصیبت میں پھنس جائے گا،مسلمان کسی صورت میں اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اگر کسی کو ایسا کہنے کی ہمت ہو تو اعلان کرے۔۔۔۔درمیان میں کچھ ارکان نے تقریرکے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی ،جس پرمولانا حسرت موہانی نے علی الاعلان اظہار کیاکہ:ان کو قائل رہنا چاہیے کہ میں اس ایوان کے فلور پر اعلان کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کبھی بھی اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ،اور ان کومسلمانوں کے عزائم کی آہنی دیوارکا روزانہ مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘( حسرت موہانی اور انقلابِ آزادی:۵۲۱)
مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ جو قانون سازمجلس کے رکن تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی تھے ،مجاہدِ ملت نے بھی دستور سازی میں بڑی قابلِ قدر کوششیں کی ہیں ۔چناں چہ قاضی محمد عدیل عباسی ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ:’’سب سے بڑا احسان جو انہوں نے ملتِ اسلامیہ پر کیا وہ دستور ہند کا موجود ہ ڈھانچہ ہے۔اس وقت مولانا دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور کم لوگوں کویہ معلوم ہوگا کہ اقلیتوں کو جوحقوق دئیے گئے ہیں ،ان کی ترتیب وتدوین میں مولانا حفظ الرحمن کا بہت بڑاہاتھ ہے۔آج یہی دستور کی دفعات ہیں،جومسلمانوں کوہندوستان میں سربلندرکھتی ہیں اور اگر ان میں حقوق حاصل کرنے کی طاقت پیداہوجائے یعنی وہ احساس کمتری سے نکل آویں تو ان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔‘‘( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۹۱)
جنا ب محمد سلیمان صابر صاحب لکھتے ہیں کہ :’’آئین ساز اسمبلی کی ممبری کو عام لوگ ایک بڑااعزاز کہہ سکتے ہیں۔لیکن حضرت مولانا نے کسی اعزاز کی خاطرنہیں بلکہ اس لئے آئین یا قانون ساز اسمبلی کی ممبری قبول کی کہ وہ شروع ہی سے ایک قومی رکن رہے تھے۔برطانوی دور میں ملک کو آزاد کرانے کا اہم مقصد سامنے تھا اور حصول آزادی کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ ملک کو ایسا جمہوری آئین دیا جائے جو بلاتخصیص مذہب کسی باشندے کو کسی دوسرے پر فوقیت یا برتری حاصل نہ ہو۔بلکہ قانون کی نظرمیں سب برابر ہوں۔یہ حضرت مولانا جیسے وسیع النظر ممبروں ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کو ایک سیکولر آئین دیا گیا۔( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۱۱۷)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close