مضامین

دہشت گردی اورامن عالم

مولانا محمود مدنی ناظم عمومی جمعیت علمائے ہند (2015ء)

اسلام نے قیام امن اور بقائے باہم کو کتنا ضروری قراردیا ہے اور وہ قتل وخون اور دہشت گردی کا کتنا سخت مخالف ہے، اس کی وضاحت کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ اسلام نے انسانی جان کو کعبہ سے زیادہ محترم قراردیا ہے، انسانی جان کا احترام کسی رنگ، زبان، نسل، مذہب،علاقے یا طبقے کے سا تھ مشروط نہیں ہے، بلکہ سب کی جان محترم ہے۔ قرآن حکیم کی سورہ المائدۃ کی آیت نمبر 32میں کسی کی جان بچانے کو تمام انسانوں کی جان بچانے اور کسی کی جان لینے کو تمام انسانوں کا قتل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جنگ مسلط کرنے و الوں سے جان ومال، عقیدہ اور اسلامی ریاست کا دفاع کرتے ہوئے حکم ہے کہ ”زیادتی نہ کرنا،زیادتی کرنے والوں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا“ (سورہ البقرہ آیت نمبر ۰۹۱)
اسلام ا یک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے اور اس ضابطہ حیات میں ا نسان کے تمدنی حقوق میں پہلا حق زندہ رہنے اور تمدنی فرائض میں پہلا فرض دوسروں کو زندہ رہنے دینے کی ضمانت ہے، آج کی دنیا میں اسی کو To live and to let live کہتے ہیں،اسلام نے جس دور میں یہ پیغام دیا اور پھر پیغا م کو عمل میں ڈھالا، اس وقت یہ پیغا م ساری دنیا کے لیے اجنبی تھا۔
جہاد بھی ظلم اور فساد کے خاتمے کا، اسلام کا اپنا فلسفہ ہے، اس کے لیے اس نے پاکیزہ طریقہ کار بھی بتایا ہے، جہاد کا حکم:مقصد، نیت اور طریقہ کار کی پاکیزگی سے مشروط ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص یا جماعت کسی کی ایماء یا دنیاوی مقاصد کے لیے فتنہ وفساد پیدا کرے اور اس کو جہاد کہہ دیا جائے، حدیث شریف میں ہے کہ قیا مت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اور پہلی چیز جس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائے گا وہ خون کے دعوے ہیں۔قران حکیم کے مخاطب تمام انسان ہیں، مگر کچھ آیات میں صرف مسلمانوں سے خطاب ہے، سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں اس مقصد حیات کی وضاحت کی گئی جس کے لیے مسلمانوں کو پیدا کیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ”تم ایک بہترین امت ہو، جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“ فتنہ وفساد اور ان تمام لوگوں کا قتل جو مسلمانوں سے قتل کے لیے نہیں اٹھے ہیں، اس مقصد عظیم سے ا نحراف ہے، مختصر یہ کہ دہشت گردی کی ہر شکل قابل مذمت ہے، دہشت گردی سے انسان کی جان ومال اور وقار کو نقصان پہنچتا ہے، اس سے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے، لہذا یہ جہاد ہو ہی نہیں سکتا۔دہشت گردی کو جہا د ثابت کرنے کی کوشش کو سیاسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے، ایسی مثالیں سامنے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں نے ایک جماعت کو پہلے مجاہد کہا اور پھر اسی کو دہشت گرد کہنے لگے، بڑی طاقتوں کے منصوبے کے تحت بھی کچھ لوگ فتنہ وفساد کو ہوا دے رہے ہیں، ان کو اسلا م اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔یہ لوگ ان طاقتوں کے علم بردار ہیں، جنھوں نے اپنے مفاد کے لیے تمام انسانوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ہندستا ن میں دارالعلوم دیوبند پہلا مذہبی ادارہ ہے جس نے تقریبا پندرہ سال قبل دہشت گردی کے خلاف فتوی دے کردودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا تھا، جمعےۃ علماء ہند نے موقع بموقع ملک کے گوشے گوشے میں بڑی بڑی دہشت گرد ی کانفرنسیں منعقد کیں اور آج تک اس کی جد وجہد جاری ہے، دارالعلوم دیوبند ا ور جمعےۃ علماء ہند باربار واضح کرچکی ہے کہ موجود دنیا میں جو فتنہ وفساد برپا ہے وہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے، اس کے خلاف آواز اٹھا نا ہم سب پر فرض ہے، یہا ں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام کا نام لے کر جو کچھ کیا جائے وہ سب اسلامی ہو یہ ضروری نہیں ہے۔حال میں عراق وشام میں جس سفاکیت سے بے قصور انسانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور مظلوم آزاد عورتوں کو غلام بنا کر بازار میں فروخت کیا جارہے ا س کی مذمت کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے، ہمارے لیے دوہری تکلیف کی بات یہ ہے کہ اسے اسلام سے منسوب کیا جارہا ہے، حالاں کہ اسلام سے تعلق تو دور کی بات، اسلا م تو ایسی خرابیوں کو ختم کرنے کے حق میں ہے۔
ہندستان کے پس منظر میں بات کریں تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ایک مخصوص اکثریتی طبقہ ایک عرصے تک مسلمانوں کو قیام پاکستا ن کا ملزم ٹھہرا کر ان کی جان ومال اور وقار کو مجروح کرتا رہا اور اب گزشتہ پندرہ سالوں سے اس میں یہ اضافہ کردیا گیا کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام بھی تھوپا جارہا ہے۔ اس ملک کے جنوب میں، شمال و مشرق میں، پنجاب میں اور پورے ملک میں جو انتہاء پسند طاقتیں سرگرم رہی ہیں یا ہیں، کیا ان کے لیے اسلام کو یا مسلمانوں کو ذمہ ٹھہرا یا جاسکتا ہے؟بے شک کشمیر میں جو ہورہا ہے، اس کے الگ محرکات ہیں اور ان کی جڑ بھی مسلمانوں کے مذہب میں نہیں ہے،اس کے کچھ اور عوامل ہیں، ان عوامل کو حکومت ہم سے بہتر جانتی ہے۔ ہم دہشت گردی کی ہر شکل کے مخالف ہیں اور دہشت گردی کو ”اپنی“ اور ”ان کی“ میں تقسیم نہیں کرتے، دہشت گردی کو اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک اور پوری انسانیت کے لیے خطرنا ک سمجھاجانا چاہیے، یہا ں یہ بات کی بھی قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی کا انسداد اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ دہشت گردی کے اصل ملزمین کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزائیں دی جائیں،اس ضمن میں بے قصوروں کی گرفتاری او رلمبی مدت تک جیلوں میں رکھنا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،مزید برآں کسی ِشخص کو محض اس لیے دہشت گرد قراردیا جائے کہ وہ ایک مخصوص تشخص کی نمائندگی کرتا ہے، نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ اور مذمو م عمل ہے، اس سے انسداد دہشت گردی کے بجائے، اسے فروغ دینے کی راہیں کھلتی ہیں، اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتابلکہ عدل وانصاف کے ذریعے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
حال میں دہشت گردی کو مسلمانوں کے کسی خاص مسلک کے حوالے سے دیکھنے کی بھی روایت شروع ہوئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ بھی پہلے سے پریشان مسلم سماج کو مزید اذیت سے دوچار کرنے کی کوشش ہورہی ہے، افسوس ہے کہ یہ تصوف کے نام پر کیا جارہا ہے، جب کہ تصوف اور بھگتی لوگوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے، ہمار ے آباء واجداد کا بھی تصوف کی ساری نسبتوں سے تعلق رہا ہے، میں خود اس نسبت سے وابستہ ہوں، یہ جو کچھ ہورہا ہے، یہ متضاد عمل ہے، جس طرح دہشت گردی کو کسی ایک مذہب سے جوڑنا غلط ہے، اس سے زیادہ غلط ہے کہ اسے کسی مسلک سے منسوب کیا جائے۔ میں جس طرح ہندستان کے ہر مذہب کے لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ متحدہو کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں اور ایک دوسرے کو شک وشبہ کی نگاہ سے نہ دیکھیں، اسی طرح مسلمانوں کے ہر مسلک و طبقے کے لوگوں سے بھی اپیل کرتاہوں کہ وہ ایک دوسرے کو شک وشبہ سے دیکھنے کے بجائے متحدہو کر دہشت گردی کے خلاف سپر آرا ہوں، اپنے اپنے زندگی کے طور طریقوں پر قائم رہ کرملک و ملت کے مشترکہ مسائل میں اتحاد وقت کی ناگزیر ضرورت ہے، جس سے راہ فرار اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ (اردو ترجمہ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close