اسلامیات

*عید؛ اسلامی رہنمائیاں اور ہماری ذمہ داریاں*

از قلم : معاذ حیدر کولکاتہ متدرّس دارالعلوم دیوبند ساکن تلجلہ روڈ، کولکاتہ- ٤٦ رابطہ: 9058996629

اس زمانے میں مسلم معاشرے کی فضا کو دیکھ کر یہ بات متصور ہوتی ہے کہ احکامِ ربانی کو بجا لانے کا اہتمام‌ صرف اور صرف رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے، چناں چہ رمضان کا مہینہ جب رخصت ہونے کے قریب ہوتا ہے تو وہ ماحول جو رمضان سے پہلے تھا وہ خود بخود لوٹ آتا ہے، معاشرتی فضا جو بڑی محنتوں سے ایمان کے رنگ میں رنگی تھی وہ یک لخت معاصی آلودگی کا شکار ہو جاتی ہے، وہ نفوس جو رمضان المبارک کی برکت سے مزکّٰی اور مصفّٰی ہوئے تھے وہ بھی متاثر ہو جاتے ہیں، اس سب کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہ ہے ہمیں رمضان کے بعد کی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے، ہم رمضان کے خاتمے کو تو عبادت و ریاضت، انابت و خشیت کے ترک کردینے کا سبب سمجھ بیٹھے ہیں، جب کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے۔

*رمضان ایک دور کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ایک دور کا آغاز ہے:*
"رمضان درحقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں بلکہ دور کا اغاز ہے، رمضان انتہا نہیں بلکہ ابتداء ہے، رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کر کے اور لپیٹ کر نہیں جاتا، وہ بہت کچھ دے کر اور جھولیاں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتے ہیں”
*(رمضان اور اس کے تقاضے: مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ: ١٣٦)*

*رمضان کے بعد کی ذمہ داریاں*
رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہو جاتا ہے، لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے، تو بہت ساری ذمہ داریاں ہیں جو رمضان کے گزرنے کے بعد بھی ہم پر باقی رہتی ہیں، اس مناسبت سے ذیل میں چند ذمہ داریاں زیر قرطاس کی جاتی ہیں:
*الف: توبہ* رمضان کے بعد سب سے مقدم اور اہم، سب سے اعلی و افضل کام یہ ہے کہ ہم اپنے سارے گناہوں سے توبہ کریں اور وقفے وقفے سے توبہ کرتے رہیں، اور اپنے گناہوں پر خوب استغفار کریں، روایت میں ہے کہ
*”طوبى لمن وجد في صحيفته استغفاراً كثيراً” (ابن ماجه ٣٨١٨،نسائي ١٠٢١٦)*
اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے حق میں خوشخبری دی ہے جس کے نام میں اعمال میں قیامت کے روز استغفار زیادہ ہوگا۔
*ب: تجدیدِ ایمان* ایمان کو نیا کرنے کی حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے، ایک روایت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: *”إنّ الإيمان ليخلق في جوف أحدكم كما يخلق الثوب الخلق، فاسئلوا الله أن يجدد الإيمان في قلوبكم” (رواه الحاكم: ١/ ٤)*
آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ *(ایمان تمہارے دلوں میں پرانا ہو جاتا ہے جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے اللہ تعالی سے یہ دعا کرو کہ اللہ تمہارے دلوں میں ایمان کو تازہ کردے)*
ایک دوسری روایت میں ہمارے آقا مولی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: *”جددوا إيمانكم”* تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا کہ ہم اپنے ایمان کو کس طرح نیا کریں؟ تو اس پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ *”أكثروا من قول لا إلٰه إلا الله”*
*(رواه أحمد والطبراني، وإسناد أحمد حسن، الترغيب: ٢/ ٤١٥)*
اس بارے میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: *”ياأيها الذين آمَنوا آمِنوا” (النساء: ١٣٦)* یہاں بھی ایمان کی تکمیل و تجدید مراد ہے۔
**ایمان کی تکمیل و تجدید کی کئی صورتیں ہیں:*
*١* سوچ سمجھ کر، شعور و احساس کے ساتھ کلمۂ توحید کی کثرت کرنا۔
*٢* ذکر کی کثرت اور ذکر کی قوّت: "قوت” کے معنی ہیں خاص کیفیات، توجہ اور استحضار کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا، یہ بات بڑی استعداد یا اعلی یقین یا طویل محنت یا ندامت اور انابت سے پیدا ہوتی ہے۔
*٣* اہلِ یقین کی صحبت: اس بارے میں قرانِ کریم میں اللہ رب العزت کا فرمانِ گرامی ہے کہ *”ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله، وكونوا مع الصادقين” (التوبة: ١٩٩)*
*٤* اعمال کی کثرت اور مداومت، اس سے بھی ایمان میں جلا، قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔

*ج: پابندئ شرع وامتثالِ اوامر:* زندگی بھر اللہ کے حکموں کی پیروی کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، رمضان میں بھی ضروری ہے اور رمضان کے علاوہ بھی، اس لۓ کہ درحقیقت ہمارے لیے دو روزے ہیں ایک عارضی روزہ اور دوسرا دائمی روزہ۔
اور عارضی روزہ رمضان میں ہوتا ہے اور دائمی روزہ یہ ہے کہ بلوغ سے لے کر موت تک کی مدت میں خلافِ شریعت کام سے احتراز کرنا، قرآن کی اس آیت سے اس کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے *”واعبد ربك حتى يأتيك اليقين” (الحجر:٩٩)*
کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی کی جائے اور دائمی روزے کو کھیل بنالیا جاۓ، وہ روزہ تو آفتاب کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، جب کہ یہ روزہ زندگی کے آفتاب رہنے تک باقی رہتا ہے۔

*د: رمضان کے تحفے کی قدر دانی:* رمضان کا سب سے بڑا تحفہ، اور اللہ رب العزت کا سب سے بڑا عطیہ "قران مجید” ہے، جیساکہ ارشاد ہے: *”شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن” (البقرة:١٨٥)*
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد بھی قران مجید سے اپنا تعلق برقرار رکھیں، اس کی تلاوت کا اہتمام فرمائیں، اور اس میں غور و تدبر جاری رکھیں، اس لۓ کہ اللہ نے سارے مسائل کا حل اس میں بیان کر دیا ہے۔

*ہ: مخلوقِ خدا پر رحم کرنا مؤاساۃ کے مہینے کے اثرات میں سے ہے:* رمضان ہمدردی وغم خواری کا مہینہ ہے، اس کے گزر جانے کے بعد اس کی تاثیر اور اس کے روزے کی قبولیت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ _”دل میں گداز اور طبیعت میں نرمی اور ہم دردی کا جذبہ پیدا ہو، اور رمضان کے گزر جانے کے بعد بھی خلقِ خدا پر شفقت، غرباء پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ سلوک کی خواہش و کوشش ہو۔”
*(رمضان اور اس کے تقاضے: ١٣٨ – ١٤٦)*

*عید رمضان سے مربوط ہے، رمضان سے جدا نہیں:*
رمضان میں دین فضا کی بلند ہونے اور شوال آتے ہی دینی معیار کے پست ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے رمضان کو شوال سے، اور شوال کو رمضان سے الگ قرار دے دیا ہے، اور اپنے ذہنوں میں طے کر لیا ہے کہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے اور دیگر مہینے معصیت کے مہینے ہیں، گر چہ ہمارا یہ زبانی دعوی نہیں ہے لیکن ہمارے عملی اقدامات یہی بتلاتے ہیں، یہ تمام کی تمام خرابیاں ہماری فکری بے اعتدالی کے نتیجے میں معاشرے میں ظاہر ہورہی ہیں۔
"جب کہ عید کا تعلق رمضان سے ایسا ہے کہ عید کو رمضان سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، عید درحقیقت ایک قدرتی پھل ہے رمضان کے درخت کا، عید ہے رمضان کا ثمرہ، عید ہے رمضان کا انعام، عید ہے رمضان کے درخت کا آخری شگوفہ، درخت نہیں تو شگوفہ گیا؟ اور پھل کیا؟ اور پھول کیا؟ اس طریقے سے رمضان اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہے۔
عید بغیر رمضان کے بالکل غیر معقول اور غیر قدرتی چیز ہے، یعنی دین کی فطرت کے خلاف ہے، رمضان کی فطرت کے خلاف ہے اور انسان کی قدرت سلیم کے خلاف ہے، عید تو رمضان کا صلہ ہے، رمضان کا انعام ہے، رمضان کے عیدی ہے۔
*( حوالۂ سابق: ١٤٧)*
اور کیو ں نہ ہو جب کہ
_”رمضان سال بھر کی برائیاں کی کفالت کرتا ہے اور بندے کے خدا سے قریب تر ہونے کے تمام موانع کو دور کر دیتا ہے”_
*(خطباتِ حکیم الاسلام: ٩/ ٦٦)*
لہذا ضروری ہے کہ ہم رمضان جیسے ماحول کو سال بھر قائم رکھنے کا اہتمام کریں، اس کی ابتدا عید سے ہوتی ہے اگر عید ہم اسلامی طرز کے ساتھ گزار لیں اور اس کی خوشیوں کو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے پورا کریں اور اس کے تمام تر انتظامات کو شریعت کے دائرے میں ہو کر انجام دیں تو ہمارے لیے سال بھر رمضان کے اثر کو باقی رکھنا اور اس کے اجر کی حفاظت کرنا آسان ہو جائے گا، سب سے پہلے ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم اسلامی عید کو سمجھیں، اور یہ معلوم کریں کہ اسلام کی سربلندی کے زمانے میں مسلمان عید کس طرح بنا دیتے تھے۔
ان سب باتوں کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ عید سے رمضان کی صلاحیتوں کا عملی آغاز ہوتا ہے، حیسا کہ حکیم الاسلام قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کے ایک بیان میں یہ بات لکھی ہے کہ
_”رمضان المبارک صلاحیتیں پیدا کرنے کا مہینہ ہے اور ماہِ عید ان صلاحیتوں کے عملی آغاز کا مہینہ ہے جس کا سلسلہ سال بھر تک جاری رہتا ہے”_
*(خطباتِ حکیم الاسلام: ٩/ ٦٧)*
تو آئیے ہم اسلامی عید کو سمجھنے کے لئے کچھ طالب علمانہ سعی کرتے ہیں۔

*اسلامی عید کے معنی و مفہوم:*
_”اسلام نے عید کے معنی اجتماعی طور پر خدا کو یاد کرنے، اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر غریبوں کی مدد کرنے کے ہیں؛ تاکہ اجتماعیتِ عامہ کا ظہور عادت و عبادت دونوں میں ہو جائے۔”_
*(حوالۂ سابق: ٩/ ٦٣)*

*”عید” افطارِ کبیر ہے*
عید افطارِ کبیر ہے، رمضان کا افطار جس طرح خوشی باعث ہوتا ہے اس طر ح عید بھی خوشی کا عظیم سبب ہے، اس بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد مبارک ہے کہ
*”للصائم فرحتان: فرحة عند الإفطار وفرحة عند لقاء ربه” (سنن النسائى، كتاب الصيام، باب: ٤١)*
حكيم الامت رحمہ اللہ کے بیان میں اس حدیث کی تشریح اس طرح لکھی ہے کہ
_”افطار دو طرح کے ہیں: ایک افطارِ صغیر جو کہ روز مرہ ہوتا ہے، دوسرے افطارِ کبیر، یعنی وہ افطار جو ختم رمضان پر ہو جس پر روزے پورے ہوجاتے ہیں، یہ افطار مجموعۂ شہر کا ہے نہ کہ کسی خاص جز کا”_
*(خطباتِ حکیم الامت: ٤٥٦)*

*عید کے موقع پر عوالم گیر اجتماعیت:*
اجتماعیت کو برپا کرنے کے لیے جس کو ہم کا اللہ رب العزت نے انتخاب کیا ہے اس کو عناصرِ اجتماعیہ سے معمور تہوار عطا کیا، اس لیے عید کے دن کے جو وظائف ہیں (مثلاً ایک وقت میں پوری دنیا میں دوگانہ پڑھنے کا اہتمام کرنا، رشتہ داروں سے ملنا جلنا، غریبوں کا خیال رکھنا، مردوں کو ایصالِ ثواب کے ذریعہ یاد رکھنا) وہ اجتماعیت کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر لۓ ہوۓ ہیں، اسی کو قاری طیب صاحب نے البیلے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے کہ
"جو قوم اجتماعیت کے لۓ دنیا میں برپا کی گئی ہے وہ عید کے وظائف کی رو سے گویا اس اجتماعیت کو ایک غیر محدود ظاہر کرتی ہے، اس کا رابطہ اجتماعی دنیا سے اتر کر برزخ سے ان تمام پاک باز انسانوں سے قائم ہوتا ہے جو ایمان کے ساتھ اِس عالم سے گزر کر اُس عالم میں پہنچ گئے ہیں، اس ساری اجتماعیت کی حقیقی روح جس سے یہ "عالم گیر” ہی نہیں "عوالم گیر اجتماعیت” بن جاتی ہے۔”
*(خطباتِ حکیم الاسلام: ٩/ ٦٥)*

*”تہوارِ عید” بندگئ حق اور خدمتِ خلق ہے:*
ہم یہ بات ضرور یاد رکھ یں کہ ہمارے ہماری خوشی کا ماحصل ذکرِ الہی، ذکرِ ربّانی، خدمتِ خلق اللہ، روحِ اجتماعیت، آخرت کا دھیان ہے، ہماری عید تہوار تو ہے،مگر دیگر اقوام کے تہوار کی مانند نہیں ہے۔
_”عید تہوار تو ہے، مگر محض لفظِ "تہوار” کی وجہ سے اسے دنیا کی عام اقوام کے تہواروں سے نہ دیکھا جائے کہ اس کی غیر معمولی وسعتیں ان دوسرے ظرفوں میں کسی طرح نہیں سما سکتیں، پس خوش قسمت ہے وہ قوم جسے ایسے تہوار دیۓ جائیں، اور خوش نصیب ہیں وہ افراد جو ان تہواروں میں ان کی شرعی حدود اور شروط کے مطابق شرکت کریں، "تہوارِ عید بندگئ حق و خدمتِ خلق ہے” نہ کہ محض نیا لباس، عطر و خوشبو اور شیریں چیزیں کھا پی لینا؛ اسی لۓ علماء نے فرمایا ہے کہ:
*”العید لمن خاف الوعیدَ لا لِمَن لَبِسَ الجدیدَ”*
*( حوالۂ سابق: ٩/ ٦٦)*

*عید کے مختلف ادوار:*
اسلامی تاریخ میں شروع سے لے کر اب تک بہت ساری نوعیتوں کی عید گذری ہے، مولانا أبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے پوری اسلامی تاریخ کا خلاصہ نکالا اور اسے تین قسموں میں ذکر کیا ہے، ذیل میں اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے۔
_”عید کئ دور سے گذری ہے:
*١* پہلے دور کی عید ہی ہر اعتبار سے عید تھی، وہی اصلی عید تھی، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے کے عید تھی، آپ کی موجودگی سے بڑھ کر عید کا کوئی تحفہ نہیں، اس وقت صحابۂ کرام زبانِ حال سے کہتے ہوں گے۔
ع- انبساطِ عید دیدن روۓ تو
عیدگاہ ما غریباں کوۓ تو

*٢* پھر حقیقی عید وہ تھی جب صبح و شام فتوحات کی خبریں آتی تھیں، اسلام کے قلم رو میں برابر اضافہ ہورہا تھا، اس زمانے میں ہر روز "روزِ عید” اور ہر شب "شبِ برات” کا مصداق تھا، اس وقت کی عید کیا تھی؟
"عید آزاداں شکوہ ملک دیں”
اس کے بعد کی صدیوں تک عید اسی طرح کی رہی۔

*٣* اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ عید آئی اس کو کہہ سکتے ہیں "عید محکوماں ہجومِ مومنین”، اب عید کا حاصل یہ رہ گیا ہے کہ مسلمان جتنی تعداد میں عام طور پر نہیں جمع ہوتے اتنی تعداد میں جمع ہو جائیں تو سمجھۓ کہ مسلمانوں کے عید ہے، آج ہماری عید وہی ہے جس میں عید کی حقیقی خوشی ناپید ہے۔ *(رمضان اور اس کے تقاضے: ١٤٨ – ١٤٩)*

*دنیا حقیقی عید سے محروم:*
اس زمانے میں مسلمان حقیقی عید سے محروم ہے اور دنیا حقیقی عید سے ناآشنا ہے، وجہ صرف اور صرف ہماری معصیت ہے، عالمی پیمانے پر خوشیاں تو منائی جا رہی ہیں لیکن یہ خوشیاں بچوں کی اٹکھیلیاں کی طرح منائی جا رہی ہیں، اس میں نہ تو ذمہ داریوں کا کوئی احساس ہے، نہ کھوئی ہوئی چیز کے حصول کا شوق ہے اور ترقیات کے لۓ کوئی لائحہ عمل ہے۔
اسی مضمون کو مفکر اسلام کے جاذب اسلوب میں ملاحظہ فرمائیں:
_ "دنیا حقی عید کو ترس رہی ہے، نہ امن ہے نہ اخلاق، نہ انسانیت ہے نہ شرافت، نہ قدر شناسی ہے نہ جذبۂ خدمت، کہاں کا تہوار، سارے تہوار جو ہیں یہ بچوں کے کھیل سے ہیں، جیسے بچوں کی کوئی ذمہ داری نہیں، کھیلیں، کودیں، کھائیں، پئیں کوئی فکر نہیں۔
دنیا کی اقوام میں بچوں کی طرح خوشیاں منا رہی ہیں، لیکن حقیقی خوشی نصیب نہیں، آج دنیا کو عالمی سطح پر ایک عید کی ضرورت ہے۔”_ *(رمضان اس کے تقاضے:١٥٧)*

*”عید” حقیقی خوشی حاصل کرنے کی کیا سبیل ہوگی؟*
یہ بات ہم کو سمجھ لیں کہ ہم دیگر قوموں کی طرح اپنی خوشی میں لہو ولعب، ناچ گانے اور دیگر معاصی کو انجا خوش نہیں ہوسکتے، وقتی خوشی کو حاصل کرنے کے لیے اس درجہ سرشار ہو جانا کہ دائمی مقاصد فوت ہو جائیں یہ عقل مندی کی بات نہیں ہے، اظہار مسرت کے لیے منکرات و معصیت کا ارتکاب تو زمانۂ جاہلیت کا دستور ہے۔
معصیت سے وقتی طور پر تو دل بہل جاتا ہے لیکن یہ طریقہ دائمی طور پر دلوں کو بے چین رکھنے کا سبب ہے، جب کہ اسلام میں مسلمان کو یہ حکم گیا ہے کہ
"مسلمان مسرت کا اظہار اس انداز میں کریں کہ وہ خوشی ان کے ظاہر اور باطن سے نمایاں ہوسکے، دل کی گہرائیوں سے سرور کی خوشبوئیں اٹھیں، زین و دماغ کے گوشون سے عطر بیز ہوائیں پھیلیں اور بدن کے رگ و ریشہ اور رواں رواں اظہار مسرت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔
ایسی لازوال خوشی کا حصول اور اس کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جس رب کائنات کا بندہ ہے وہ اس بندہ نواز ہے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کر کے اس کی خوشنودی کا مستحق بن جائے۔ ظاہر ہے کہ جس بندے کا آقا اس سے خوش ہو جائے اس بندہ کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے؟ اسی لیے قران کریم میں فرمایا گیا کہ : *”ورضوان من الله أكبر” (التوبة: ٧٢)*
*( تحفۂ رمضان، مفتی سلمان منصورپوری حفظہ اللہ ورعاہ: ١٥٧ – ١٥٨)*
اور کیوں نہ اس طرح ہو جبکہ مسلمانوں کی خوشی کا تعلق ایک خاص نظریے سے ہے اور ایک خاص اصول پر مبنی ہے، خوشی اسلامی نظریے سے خالی نہیں ہے اور اسلامی اصول سے باہر نہیں، اور اسلامی رہنمائی سے ماورا نہیں ہے، ڈاکٹر محمود احمد غازی کے بیان میں یہ بات لکھی ہے کہ:
"سلام کے دونوں عیدوں کا تعلق دو خاص اصولوں سے ہے، وہ ایسے اصول ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا ہمیشہ ممتاز ترین رہے ہیں۔
ایک اللہ تعالی کی طرف سے وحی الہی کا نزول، قرآن مجید کی عطا، جس کے شکر میں عید الفطر منائی جاتی ہے۔
اور دوسرے اللہ تعالی کے حضور اتنی بڑی قربانی ہے کہ اس سے بڑی قربانی کسی انسان نے نہ کبھی دی، اس کی یاد میں عید الاضحی منائی جاتی ہے، گویا تفریح اور تہوار کا تعلق بھی نظریے اور اصول کے ساتھ ہے۔
*(اسلام میں تفریح کا تصور: ۳)

*اسلامی خوشی جشن و نشاط اور عبدیت و انابت کے امتزاج کا بہترین آئینہ دار:*
مسلمانوں کے عید کی خشک ہے کہ جس میں خوشی کا کوئی طریقہ بھی روا نہیں اور خوشی کے کسی بھی سبب کا استعمال درست نہیں، بلکہ مسلمانوں کی عید ایک معتدل عید ہے۔
‌‌”اس کی مسرت و شادمانی میں بھی خدا پرستی کے عناصر کو ایسا سمویا گیا کہ قالب اگرچہ جشن و نشاط اور سرور و انبساط کا ہے لیکن روح اس میں بھی عبدیت و انابت کی ہے۔”
*(تحفۂ رمضان، مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ: ٧٢)*

*اسلامی خوشی میں اسلامی طرز مسرت اختیار کرنا:*
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں نہ کسی تفریح کی گنجائش ہے اور نہ کوئی خوشی منانے کی گنجائش ہے۔ اسلام میں داخل ہونے والا شخص تو صرف اور صرف خشک زندگی گزارے گا، اور قسم کی مسرت، خوشی اور سیر و تفریح سے بالکل الگ ہو کر ایک تارک الدنیا کے طور پر زندگی بسر کرے گا۔
کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام سے کوئی عبادت اور نماز روزے کا نام ہے ہے اس کے بعد ہم جس طرح چاہیں اور جو چاہیں وہ کریں، جس کی بھی نہ نقالی کریں کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ دونوں نظریے اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں، شریعت کی تعلیم سے ہم آہنگ نہیں ہیں، اس لیے کہ اظہار مسرت اور سیر و تفریح کرنے کا تقاضہ تو بشری ہے، اس میں شرعاً کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں ہے۔
اور شریعت نے انسان کے تمام فطری تقاضوں کی تکمیل کا سامان کیا ہے، اس سلسلے میں ہدایات بھی شریعت میں موجود ہے، اج رات کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تفریح تو ایک ثقافتی چیز ہے اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ خیال درست نہیں ہے، بلکہ اسلام کا تو ہر چیز سے تعلق ہے۔

*مباح تفریحیں:*
اگر خوشی کا اور اظہار مسرت کا کوئی طریقہ مندرجۂ ذیل شرائط کو پورا کرتا ہو تو اس کا اختیار کرنا مباح ہے جائز ہے:
*١* وہ طریقہ کوئی مشرکانہ پس منظر نہ رکھتا ہو۔
*٢* وہ طریقہ شریعت کے خلاف نہ ہو، چہ جائیکہ وہ قومی ثقافت کیوں نہ ہو۔
*٣* اگر وہ طریقہ مقامی و علاقائی ثقافت میں شامل ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ سے متصادم نہ ہو۔
*٤* وہ طریقۂ ثقافیہ کا تعلق عقائد و عبادات اور دیگر امور دینیہ سے نہ ہو؛ اس لیے کہ ان چیزوں میں احکامِ شرع کی پیروی کی جائے گی نہ کہ مقامی، علاقائی اور قومی ثقافت کا پاس و لحاظ کیا جاۓ گا۔

*تفریح کی تین عام شکلیں:*
*شہروں اور ملکوں کی سیر و تفریح
*باہمی مقابلہ
*کھیل کود میں مقابلہ
اب ان تینوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
"*(١) شہروں اور ملکوں کی سیر و سیاحت:* اس بارے میں اسلام یہ کہتا ہے کہ جب تفریح کے لے جاؤ تو ہر چیز کو عبرت کی نگاہ سے دیکھو، اور غور کرو کہ پچھلے اقوام کا عروج و زوال کیسے ہوا؟، ان کے آثار کو محض تاریخی چیز کے طور پر نہ دیکھو، جیسا کہ قرآن میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:
*”سیروا فی الأرض، فانظروا کیف کان عاقبة المجرمين” (النمل: ٦٩)*
بعض جگہ ایسے تاریخی اور عبرت انگیز مقام نہیں ہوتے تو وہاں مظاہر قدرت کو دیکھو، اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا:
*”أفلا ينظرون إلى الإبل كيف خلقت، والى السماء كيف رفعت، وإلى الأرض كيف سطحت” (الغاشية: ١٧ – ٢٠)*

*(٢) باہمی مقابلہ:* مقابلہ اچھی چیز ہے، مگر مقابلہ کسی بری چیز میں نہیں ہونی چاہیے، اسی برائی میں یا کسی طرح کوئی چیز میں مقابلہ ہر گز نہیں کرنا چاہیۓ ، بلکہ مثبت اور خیر کی چیزوں میں کرنا چاہیے، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے *”وفي ذلك فليتنافس المتنافسون” (المطففین: ٢٦)*

*(٣) کھیل کود میں مقابلہ:* کھیل کود جسمانی صحت کے لۓ بہت بہترین چیز ہے، البتہ اس میں کوشش یہ کرنی چاہئے کہ بچے کی دلچسپی کو باقی رکھتے ہوۓ جتنی تربیت دی جاسکتی ہے اتنی تربیت بھی دیں۔
یہ تین تفریحیں ہیں جو اسلام کے مقاصد سے متصادم نہیں ہے، ان تفریحیں پر آپ بقیہ تمام تفریحوں کو قیاس کرسکتے۔
*(اسلام میں تفریح کا تصور، ڈاکٹر محمود احمد غازی: ٨)

*جائز ضروریات کو نظر انداز کر کے تفریح کرنا کیسا ہے؟*
_”ہر سلیم الطبع شخص جانتا ہے کہ تفریح کی ضرورت وہاں ہے جہاں باقی ضروریات آپ کی پوری ہوں، جہاں آپ کی ساری پریشانیاں دور ہوگئ ہوں اور اللہ نے جائز وسائل دیۓ ہوں جو آپ تفریح میں خرچ کرسکتے ہوں، ورنہ جائز ضروریات کو نظر انداز کر کے اور اپنے فوری مسائل کو قربان کر کے تفریح کرنا کوئی معقول انسان پسند نہیں کرے گا”_
*(حوالۂ سابق: ٤)*

*تفریح کے حدود:*
*(١) حیا:* انسان کو تفریح منانے میں حیا کا پابند ہونا ضروری ہے، حیا اور اخلاق بنیادی حد ہے جو شریعت نے مقرر کی ہے، نیز حیا ایک فطری چیز ہے، شریعت نے انسانی فطرت کے مطابق حیا کی شرط رکھی ہے۔
*(٢) اسراف و تبذیر سے بچنا:* "اسراف” سے مراد: کسی زائد کام میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا، اور "تبذیر” سے مراد: ناجائز کام میں خرچ کرنا۔
ظاہر ہے کہ ہمارے مال و دولت کا حقیقی مالک اللہ ہے، ہمارے قبضہ میں جو پیسہ ہے ہم اس کے امین ہیں، ہم اس رقم کے ٹرسٹی ہیں، اور رقم کو استعمال کرنے کی اللہ نے ہمیں اجازت دی ہے، اور انھوں نے جو مال و دولت دیا ہے وہ جائز استعمال کے لۓ دیا ہے نہ کہ ناجائز استعمال کے لۓ۔
*(٣) مقاصدِ شریعت سے تجاوز وتجاہل کرنے سے احتراز:* تفریح کے دوران شریعت کے اہم مقاصد کو نظر انداز نہ کیا جاۓ؛ اس لۓ کہ انسان کو اللہ نے بہت اونچے مقام سے نوازا ہے، یہ سب مخلوقات سے اوپر اور خالقِ کائنات سے نیچے ہے، جو حیثیت پیغمبر کی اپنی قوم میں ہوتی ہے وہ حیثیت امتِ مسلمہ کی بقیہ اقوام میں ہے، جیسا کہ قرآن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: *”لتکونوا شھداء علی الناس، ویکون الرسول عليكم شهيداً” (البقرة:١٤٣)*
اب اتنے اونچے مقام کو چھوڑ کر تفریح کا آپ اگر کوئی ایسا طریقہ اختیار کرلیں جس میں آپ اس بات کو بھول جائیں کہ آپ کس کام کے لۓ آۓ تھے؟ کس کام کے لۓ بھیجے گۓ تھے؟ تو یہ ایک عام عقل کے بھی خلاف ہے، اور شریعت کے بھی خلاف ہے۔
یہ تین بنیادی شرطیں ہیں جو شریعت نے تفریح کے لۓ رکھی ہیں، ان حدود کے اندر جو بھی تفریح ہوگی وہ جائز ہوگی۔
*(حوالۂ سابق: ٤ – ٥)*
اللہ تعالی مذکورہ بالا خطوط کے مطابق ہم عیدکی خوشیاں منانے کی توفیق نصیب فرماۓ، آمین !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : معاذ حیدر کولکاتہ
متدرّس دارالعلوم دیوبند
ساکن تلجلہ روڈ، کولکاتہ- ٤٦
رابطہ: 9058996629

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close