مضامین

مولانا عرفان مظاہری جیسا میں نے دیکھا

مولانا عرفان مظاہری جیسا میں نے دیکھا
محمد یاسین جہازی 9891737350

لاشعوری عہد میں گاؤں محلے کے جن عالموں اور مولاناؤں کے نام سے ہمارے کان مانوس ہوئے، ان میں ایک نام مولانا عرفان مظاہری بھی تھا۔ اس وقت ان کی وجہ شہرت جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کے پلیٹ فارم سے ملی خدمات اور جھاڑپھونک کا عمل تھا؛ جو مولانا کا ذریعہئ معاش بھی تھا۔ تعویذ و دعا کے پیشہ نے انھیں نہ صرف گاؤں؛ بلکہ اس سے وسیع حدود میں شہرت دلائی۔ اور بالیقین مولانا کی اس صلاحیت سے خلق خدا کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب مولانا مظاہری دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، تو بعد المغرب مسجد رشید کے صحن میں ایک صاحب کو مراقبہ میں زیارت کرارہے تھے۔ راقم نے بھی والدین کی زیارت کرانے کی درخواست کی۔ مولانا نے آنکھ بند کرنے کو کہا۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ اس کے بعد کئی چیزیں پوچھتے رہے کہ یہ آیا، وہ آیا، یہ ہوا، وہ ہوا، لالٹین جلا، بتی بجھی وغیرہ وغیرہ؛ لیکن میرے ذہن تصور میں ایسا کوئی نقش نہیں ابھرا، جس کا جواب ہاں میں ہو؛ بالآخر مجبور ہوکر کہا کہ تمھارا آسن بھاری ہے، اس لیے تم زیارت نہیں کرسکتے۔
بہرکیف! ہوسکتا ہے کہ میرے ساتھ پیش آیا یہ واقعہ اتفاقی حادثہ کے ریزلٹ پر مبنی ہو، تاہم عوام الناس کا ایک بڑا حلقہ ان سے دعا درود اور تعویز لیا کرتا تھا۔
مولانا مظاہری کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ تھا، جو آخری عمر تک جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا اپنے عہد جوانی میں تعلیمی اور ملی خدمات کے لیے ایک امتازی شان رکھتے تھے۔
تعلیم و تدریس کے لیے انھوں نے علاقے اور بیرون کے کئی مدارس میں ملازمت اختیار کی؛ حتیٰ کہ گاؤں کے مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں بھی انھوں نے1989تا 1992ء انتظامی فرائض انجام دیے۔(رہنمائے مسلم، ص/19)
ملی خدمات کے حوالے سے ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔ اس کے لیے مولانا جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کا پلیٹ فارم منتخب کیا۔ چنانچہ 17/ مئی 1973ء کو جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کی ایک انتخابی میٹنگ مدرسہ اسلامیہ کھٹنئی میں منعقد ہوئی، جس میں آپ کو پہلی مرتبہ ناظم دفتر چنا گیا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/40)
بعد ازاں بتاریخ 25/ مئی 1975ء کو منعقد انتخابی اجلاس میں آپ کو نائب ناظم جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ منتخب کیا گیا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/41)
پھر بتاریخ 12/ مئی1978ء کو منعقد ایک خصوصی میٹنگ میں جمعیت علمائے ہند کے تعمیری پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے پیش نظر ایک شرعی پنچایت تشکیل دی گئی، جس میں بطور رکن مولانا محمد عرفان مظاہری کو بھی شامل کیا گیا۔ اس وقت آپ مدرسہ تجوید القرآن پاکوڑیا میں صدر مدرس تھے۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/41)
مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں 17/ مئی1981ء کو جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کی مجلس عاملہ اور مجلس منتظمہ کامشترکہ اجلاس ہوا، اس میں ایک ایجنڈا انتخابی عمل کا بھی تھا۔ چنانچہ مولانا مظاہری کو اس اجلاس میں نائب ناظم جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ منتخب کیا گیا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کی، ص/49)
پھر اسی اجلاس میں آپ کو مجلس عاملہ کا رکن بھی نام زد کیا گیا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/50)
6/ مئی1984ء بروز اتوار بعد نماز ظہر بمقام روپنی مدرسہ، جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کی مجلس عاملہ و مجلس منتظمہ کی مشترکہ میٹنگ ہوئی۔جس میں روپنی علاقہ میں دو روزہ تعلیمی کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک مجلس استقبالیہ تشکیل دی گئی، جس میں آپ کو سکریٹری منتخب کیا گیا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/55)
اس میٹنگ(6/ مئی1984ء) کا ایک ایجنڈا تعلیمی بورڈ کا قیام بھی تھا۔ چنانچہ تعلیم بالخصوص دینی تعلیم کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے تعلیمی بورڈ کے سلسلہ میں ایڈھاک کمیٹی کی تشکیل کی گئی، تاکہ آئندہ باضابطہ تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔اس کمیٹی کے ممبران میں ایک نام مولانا عرفان صاحب کا بھی تھا۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/56)
اسی میٹنگ میں انتخاب بھی عمل میں آیا، جہاں آپ کو جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کا ناظم اعلیٰ نام زد کیا گیا۔ آپ 12// اپریل1987 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/58و 135)
14/ فروری 1986ء جمعہ کی شام کو مدرسہ روپنی میں تعلیمی و ملی کانفرنس کے سلسلہ میں ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ اس میں اراکین عاملہ و منتظمہ کے علاوہ قوم وملت کے بہی خواہ حضرات شریک ہوئے۔ ابتدائی کارروائی کے بعد مالیات کی فراہمی کا جائزہ لیا گیا۔ مولانا محمد عرفان مظاہری جہاز قطعہ ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کو خصوصی طور پر مبارک باد پیش کی گئی،کیوں کہ انھوں نے جناب محمد نجم الہدیٰ صاحب کھٹنوی کے ساتھ بذریعہ سائکل سب ڈویژن دیوگھر، دمکااور پاکوڑ کا دورہ کیا اور مالیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی۔ (تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ، ص/62)
جمعیت کے تنظیمی ڈھانچے میں صدر کے بعد ناظم ہی سب سے ذمہ دار اور فعال شخص ہوا کرتا ہے۔ مولانا مظاہری کو نظامت علیا کے لیے منتخب کیا جانا ہی اس بات کی واضح علامت ہے کہ ان کے اندر تنظیم و تحریک کی صلاحیت موجود تھی۔ گھوڑا گاڑی اور پیدل کے دور میں انھوں نے سنتھال پرگنہ کے وسیع حلقے کو سنبھال رکھا تھا اور اپنی تحریکی ذہانت سے ملک و ملت کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ کاش ان کے دور نظامت میں کیے گئے ملی کارناموں کا ریکارڈ موجود ہوتا، تو آج مولانا کو خراج عقیدت پیش کرنے میں آسانی ہوتی اور نسل نو کے لیے قابل تقلید نمونہ ہوتا۔
مولانا عرفان مظاہری کی تدریسی صلاحیت کس معیار کی تھی، اس حوالے سے کوئی تحقیقی معلومات نہیں مل سکیں؛ البتہ یہ ضرور دیکھا گیا کہ وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے تھے اور میر محفل کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آتا تھا۔ چنانچہ حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی کاجب صدر شعبہئ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے 30/دسمبر2008ء کو دیوبند میں تقرر ہوا،تو اہل بستی نے تقریب استقبالیہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تقریب استقبالیہ کی صدارت کے لیے مولانا مظاہری ہی کا انتخاب عمل میں آیا۔
خطابت میں مولانا کی ذات تصنع و ملمع سازی سے پاک تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے۔ ان کا سادہ اور اصلاحانہ انداز سامعین کو بہت متأثر کرتا تھا۔
خانقاہ عرفانیہ کی طرف
کووڈ لاک ڈاون میں جہاں لوگوں کے کاروبار حیات پر تالے لگ گئے تھے، اور وہ دیار معیشت سے آبائی وطن لوٹنے پر مجبور ہو گئے تھے، وہیں مولانا عرفان مظاہری نے بھی جہاز قطعہ میں اقامت اختیار کی۔
ناچیز کی کئی سالوں سے دلی تمنا تھی، جس کا اظہار اپنے اکابر اور ہم عصروں سے کرتا رہتا تھا کہ علاقے کے صاحب نسبت حضرات جس طرح رمضان میں دیوبند، بنارس اور کشمیر کی خانقاہوں میں جاتے ہیں، اسی طرح اگر یہ سلسلہ مجاز حضرات علاقے میں شروع کریں، تو مقامی لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا۔ یہ درخواست ماسٹر شمس الضحیٰ صاحب کھٹنی، مفتی عبد الرحمان صاحب مہتمم مدرسہ محمود المدارس گڈا، مفتی شوکت علی صاحب شیخ الحدیث مدرسہ سعاد ت دارین گجرات اور قاری عبد الجبار صاحب صدر شعبہئ خطاطی دارالعلوم دیوبند سے کی۔ مفتی محمد سفیان ظفر صاحب سے بھی اپنے والد محترم کو آمادہ کرنے کی گذارش کی تھی۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد جب مفتی سفیان صاحب نے خانقاہ عرفانیہ کا سنگ بنیاد رکھا، تو بڑی خوشی ہوئی کہ سلوک و معرفت کا کام اپنے جہاز قطعہ سے شروع ہورہا ہے۔
چوں کہ راقم سلوک و معرفت کے فن سے بالکل ناآشنا ہے، اس لیے مولانا مظاہری اس کے کس مقام پر فائز تھے، کچھ نہیں لکھ سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود سے بیعت کرانے کے لیے پہلے کسی صاحب نسبت بزرگ سے بیعت اور ان کی اجازت و خلافت ضروری ہوتی ہے۔ مولانا کے صاحب زادے مفتی سفیان صاحب کی تحریروں سے ان کی اجازت و خلافت کی شہادت ملتی ہے؛ لیکن مولانا کے ہم عصروں سے استفسار سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت کے اس کے برخلاف ہے۔ ایک شہادت کے مطابق حلقہئ جماعت سے وابستہ ایک بزرگ شخصیت جناب حکیم نسیم صاحب سے مولانا کو خلافت ملی تھی، لیکن مولانا مظاہری کے تعویذی عمل کی وجہ سے خلافت واپس لے لی تھی۔
اسی طرح فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ سے بھی خلافت کی بات کہی جاتی ہے۔ حافظ فضل الرحمان چنگے گڈا مرید حضرت فدائے ملتؒ کے قول کے مطابق حضرت فدائے ملتؒ نے مولانا عرفان کو میرے ساتھ لگا دیا ہے؛ لیکن کثرت ذکر کی وجہ سے حافظ صاحب کا دماغی توازن بگڑگیا تھا اور خود کو پیر کہنے لگے تھے، تو مولانا مظاہری نے حافظ صاحب کوہی پیر تسلیم کرلیا اور فدائے ملتؒ سے رجوع چھوڑ دیا۔پھر بعد میں مولانا مظاہری کا بھی دماغی توازن بگڑ گیا، جس کے سبب گلی محلوں میں گانا گنگنایا کرتے تھے۔ ذاتی مشاہدہ بھی یہی ہے کہ فدائے ملتؒ کے متوسلین جس طرح خانقاہ دیوبند سے وابستہ ہیں، مولانا مظاہری کو کبھی رجوع کرتے نہیں دیکھا۔اسی طرح اس طرح کے جنتے بھی حضرات ہیں، وہ اپنے تعارف و تشہیر میں اپنے شیوخ کو مقدم رکھتے ہیں؛ لیکن مولانا مظاہری کے خانقاہی جلسوں کا اشتہار دیکھتے ہیں، تو شیوخ کی نسبت سے محرومی نظر آتی ہے۔
اسی طرح جناب عبداللہ فاضل صاحب پاکوڑیا سے اجازت کی بات کہی جاتی ہے؛ لیکن وہ مغلوب الحال تھے، جن کی اجازت ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔اسی طرح تصوف میں ایک ہی شیخ سے وابستگی تزکیہ و تصوف کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور کثرت شیوخ قابل تحسین نہیں سمجھی جاتی، جب کہ مولانا مظاہری کے شیوخ میں کئی ناموں کو پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت حال کیا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
بہرکیف!مولانا مظاہری کا سلوک و معرفت میں جو بھی مقام ہو، اس سے قطع نظر یہ امر باعث مسرت ہے کہ مولانا نے گاؤں میں خانقاہ کھول کر دیہاتی عوام کو یہ سلیقہ سکھایا کہ زندگی جینے کا ایک شعور یہ بھی ہے کہ نماز روزہ کے علاوہ نفس و روح کے تزکیہ کے لیے باطنی نسبت بھی ضروری ہے، اور بالیقین ان کے لیے یہ سلسلہ صدقہئ جاریہ ثابت ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی دل میں کھٹک رہی ہے کہ مولانا مظاہری کے انتقال کے بعد ان کے مریدوں کی طرف سے منسوب تحریروں میں جس طرح کی کرامات کا اظہار کیا گیا اور جس قسم کے مافوق الفطرت واقعات بیان کیے گئے، وہ مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی تک کے شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں قبرستان کو چھوڑ کر ایک علاحدہ جگہ پر رسم تدفین کی ادائیگی سے بھی دانش وار اور علما حضرات خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں صنم پرستی کی رسم بد نہ شروع کردی جائے۔ اگر خدانخواستہ خدشات عملی شکل اختیار کرلیتے ہیں، تو یہ نہ مرحوم کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ ہی لواحقین کے لیے کار خیر۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق ارزانی کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button
Close