محمد نظام الدین قاسمی ایڈیٹر جہازی میڈیا
مسجد نبوی کا قیام
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں تقریبا چودہ دن قیام کے بعد جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت آپ ایک اونٹنی پر سوار تھے ، مرکزی جگہ پے آکر کے اونٹی بیٹھ گئی ، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گیے کہ قیام گاہ کی جگہ یہی ہے ، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ زمین سہل اور سہیل کی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین خریدنے کی بات کی ، سہل اور سہیل نے اللہ کی رضا کے لیے فی سبیل اللہ دینا چاہا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا اور اس جگہ کو قیمتا خریدا جس کی قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ادا کی اور اس وقت اس کی قیمت سونے کے دس دینار ادا کی تھی ، قیمت کی ادائیگی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چاروں خلفاء اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے محنت مزدوری اور کوشش سے مسجد نبوی بنائی اور اس طرح سے کی تعمیر ہوئی ، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسجد زمین خرید کرکے بنانا زیادہ بہتر اور افضل عمل ہے بالمقابل وقف کردہ زمین پر مسجد بنانے کے ، چونکہ موجودہ وقت میں جو مسجد وقف کردہ زمین پر بنتی ہے ، اکثر میں خاندانی تسلط بھی باقی رہتا ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ خریدی ہوئی زمین پر مسجد بنائی جائے ـ
مقاصد مسجد نبوی اور حالات کا تجزیہ
یوں تو مسجد نبوی کے قیام کا مقاصد کافی ہیں، لیکن ہم یہاں پر ترتیب وار کچھ اہم نکات کو بیان کریں گے ،تاکہ اس کی روشنی میں دیگر مقاصد کا بھی سمجھنا آسان ہو جائے ـ
(1) عبادت کا مرکز
مسجد نبوی کے قیام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ تھا وہ عبادت کا مرکز تھی ، جس میں نماز، ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت جیسی اہم عبادتوں کو انجام دیا جاتا تھا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان دینے پر معمور تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو باجماعت نماز پڑھاتے تھے اور جب تک باحیات رہے اس اہم فریضہ کو انجام دیتے رہے ـ
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اذان دینے پر معمور ہونا
عَنْ أَنَسٍ قَالَ أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ.
(بخاری شریف 604)
ترجمہ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے جملے دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت کے جملے ایک ایک بار کہیں۔
وضاحت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان اور اقامت کا حکم دینا ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ہر مسجد میں ایک مؤذن ضرور ہونا چاہیے ، اگر مسجد بڑی ہے ، وسائل بھی موجود ہیں تو دو مؤذن ہونا چاہیے تاکہ ذمہ داری کو نبھانے میں آزادی محسوس کریں ، لہذا جن مساجد میں امام ایک ہے وہی اذان بھی دیتے ہیں اور نماز بھی پڑھاتے ہیں تو وہاں مؤذن کا انتظام ضرور ہونا چاہیے، وسائل ہونے کے باوجود امام سے ہی اذان بھی دلوانا کام کا بوجھ ڈالنا ہے جو کہ غلط ہے اور منصب امامت کے خلاف بھی یے ـ
آقا کا امامت نماز
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي بِنَا الصَّلَوَاتِ.
(بخاری شریف 657)
ترجمہ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ”مسجد نبوی میں” باقاعدہ نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔
وضاحت
یہ حدیث ہمیں پیغام دیتی ہے کہ ہر مسجد میں ایک امام ضرور ہونا چاہیے ، جن گاؤں دیہات کی مساجد میں امام نہیں ہے وہاں انتظام کرنا چاہیے ، امام کا انتخاب عالم کی نگرانی میں ہونا چاہیے ،امام کے اندر وہ خوبیاں اور صفتیں ہونی چاہیے ، جن خوبیوں اور صفتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیا کرتے تھے ، اگر کسی کے اندر وہ صفتیں موجود نہیں ہیں تو سیرت رسول کا مطالعہ کرکے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے، ذمہ دار اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ امام کو بھی وہی مقام و مرتبہ دیں جوصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ـ
آج کا افسوسناک المیہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں سارے فیصلے خود کیا کرتے تھے ، بوقت ضرورت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مشورہ بھی کرتے تھے لیکن فیصلہ کا حق صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا ، آج اکثر مساجد کے حالات یہ ہیں کہ امام چاہے کتنا بھی قابل کیوں نہ ہو ، کتنی ہی اچھی صفات کے حامل کیوں نہ ہوں ، امام کو فیصلہ کا اختیار دینا تو بہت دور کی بات ہے، اپنی میٹنگ اور مشورہ میں شریک کرنا بھی معیوب سمجھتے ہیں ،حتی کہ امام اگر اپنی مرضی سے نماز کے اوقات بدل دیں تو اس کے خلاف ذمہ دار آواز اٹھانے لگتے ہیں ، سرعام رسوا کیا جاتا ہے، احساس دلایا جاتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے نماز کے اوقات بھی نہیں بدل سکتے ہیں ، گویا کہ موجودہ وقت میں امام اور ذمہ دار میں بہت دوریاں ہیں ، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے، ایک ساتھ بیٹھ کرکے مسجد کو آباد کرنے اور وہاں کے انتظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ـ
مساجد میں جماعت کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً.
( بخاری شریف 645 )
ترجمہ
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز، اکیلے پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
وضاحت
اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ مسجد کا ایک مقصد باجماعت نماز پڑھ کرکے اسے آباد کرنا بھی ہے ، آج ہمارے حالات یہ ہیں کہ ہم مسجدوں کو آباد صرف رمضان ، عیدین اور جمعہ میں کرتے ہیں وہ بھی اس انداز سے کہ تو چل میں آیا ، نہ آداب کی رعایت ، نہ سنتوں کا اہتمام ، صرف فارملٹی کررہے ہیں ، اس میں ریئلٹی کچھ نہیں ہے ، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نماز میں ریئلٹی اور حقیقت پیدا کریں ـ
مساجد میں تلاوت قرآن اور اذکار
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ.
( مسلم 2699 )
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں اس کا درس و تدریس کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس موجود (فرشتوں) میں کرتا ہے۔
وضاحت
یہ حدیث ہمیں پیغام دیتی ہے کہ مسجد کا مقصد جہاں نماز پڑھنا ہے ، اسی کے ساتھ تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کرنا بھی ہے ، آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بہت مشکل سے نماز کے لیے آتے ہیں ، تلاوت قرآن اور اذکار صرف رمضان میں کرتے ہیں، بقیہ دنوں میں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں جو کہ بہت ہی غلط ہے ـ
محمد نظام الدین قاسمی
بانی و مہتمم جامعۃ الہدی جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
صدر جمعیت علماء بلاک بسنت رائے گڈا
ایڈیٹر جہازی میڈیا
29/9(2025
9568404747