محمد نظام الدین قاسمی بانی و مہتمم جامعة الھدیٰ جہازقطعہ ، سب ایڈیٹر جہازی میڈیا
امام و خطیب مسجد گرین پارک دہلی
9568404747
( قسط اول میں ہیٹ کرائم کی تعریف ، آغاز اور مثال پڑھے تھے ، قسط دوم میں بعثت نبوی سے قبل عرب قبائل کے ہیٹ کرائم کو پڑھا ، اب قسط ثالث میں بعثت نبوی اور عرب قبائل کے ہیٹ کرائم کا خاتمہ پڑھیں گے)
ابتدائیہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب قبائل میں نظریاتی طور پر تین ایسے بڑے وجوہات تھے کہ جس کی بنیاد پر عرب قبائل میں ہیٹ کرائم کے جرائم وجود میں آ تے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں ـ
(1) قبائلی عصبیت
(2) جاہلی غیرت
(3) طبقاتی برتری
اب ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھیں گے کہ ان تینوں نظریات کا خاتمہ کیسے کیا گیا ـ
(1) قبائلی عصبیت کا خاتمہ قرآن سے
عرب معاشرے میں قبائلی عصبیت عروج پر تھی ، جس کی وجہ سے جنگیں خونریز لڑائیاں وجود میں آتی تھیں اور یہ نسل در نسل چلتا رہتا تھا، اللہ تعالی نے سورہ حجرات کی ایت نمبر تیرہ میں اصولی بات کی روشنی میں قبائلی عصبیت کا خاتمہ کرکیا اللہ تعالی نے فرمایا ـ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
(الحجرات 13)
ترجمہ
اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا ہے ، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا ہر چیز سے باخبر ہے ـ
وضاحت
اہل عرب قبیلے کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میرا قبیلہ اعلی اور تمہارا ادنی ہے، قبیلے کی بنیاد پر تکبر کیا کرتے تھے، ان کے نزدیک عزت و ذلت کا معیار صرف قبیلہ اور خاندان تھا ، مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے تین اصولی باتوں کی روشنی میں قبائلی عصبیت کو ختم کیا ہے ـ
پہلا اصول
پہلا اصول یہ ہے کہ سب کی اصل ایک ہےاور وہ یہ کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے یعنی سب آدم اورحوّا کی اولاد ہیں اس لیے قبیلے پر فخر کرنے کا نظریہ غلط ہے اور اس نظریہ سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا ہے ـ
دوسرا اصول
دوسرا اصول یہ ہے کہ قبائل میں بانٹنے کا مقصد صرف تعارف ہے نا کے فخر ، تکبر اور برتری ـ
تیسرا اصول
تیسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک عزت اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے قبیلہ رنگ اور نسل نہیں ہے ـ
(2) جاہلی غیرت کا خاتمہ قرآن سے
عرب قبائل بیٹی کی پیدائش پر عار اور شرم محسوس کرتے تھے، پیدائش پر بیٹیوں کو دفن کر دیا کرتے تھے، کچھ لوگ غربت فاقہ اور تنگ دستی کی وجہ سے کرتے تھے تاکہ خرچ نہ اٹھانا پڑے اور کچھ لوگ جاہلی غیرت کی وجہ سے کرتے تھے کہ اگر بیٹی دشمن کے ہاتھ لگ جائے گی ہم بدنام ہو جائیں گے ، ان دونوں نظریے کا خاتمہ اللہ تعالی نے اس آیت کے ذریعہ سے کیا ہے وَلَا تَقْتُلُوا۟ أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْـًٔا كَبِيرًۭا
(سورۃ الإسراء 31)
ترجمہ
اور اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بےشک ان کا قتل ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
وضاحت
یہاں خشية املاق کا مطلب فقر وفاقہ کے ساتھ غیرت و عار بھی ہے گویا کہ ایک ہی لفظ سے اللہ تعالی نے دونوں طرح کے نظریات کا خاتمہ کردیا ـ
(3) طبقاتی برتری کا خاتمہ قرآن سے
بعثت نبوی سے پہلے عرب معاشرہ میں طبقاتی برتری کا رواج عام تھا ، غلام کو انسانی کے درجے سے کمتر سمجھا جاتا تھا ان کی جان، مال اور عزت کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے ،
آقا جب چاہے غلام کو مار سکتا تھا، بیچ سکتا تھا یا اس پر ظلم کر سکتا تھا اور یہ صرف طبقاتی برتری کی وجہ سے ہوتا تھا، اس نظریہ کا خاتمہ اللہ تعالی نے اس آیت سے کیا ہے
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا
(المائدة 32)
ترجمہ
جس نے کسی ایک جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد کیا ہو، تو گویا اس نے سب انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے ایک جان کو بچایا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا
وضاحت
اس آیت میں اللہ تعالی نے نفسا کے ذریعہ سے ایک عام قاعدہ بیان کیا ہے کہ انسان کی جان کی حرمت سب کے لیے برابر ہے ،طبقے، نسل، رنگ، مال یا نسب کی وجہ سے حرمت الگ الگ نہیں ہے ،بلکہ ایک جان ہونے کی وجہ سے سب برابر ہیں ، غلام اور آقا کی جان اور حرمت میں کوئی فرق نہیں ہے
کمزور اور طاقتور کی جان میں کوئی فرق نہیں ہے ،اصل معیار انسانیت ہے انسان کو انسان ہونے کی وجہ سے حرمت عطا کی گئی ہے نہ کہ اس کے قبیلے، قوم یا مال و دولت کی بنیاد پر اس آیت میں اللہ تعالی نے طبقاتی برتری اور نسلی امتیاز کی جڑکو کاٹ رکھ دیا ہے ـ
(1) قبائلی عصبیت کا خاتمہ حدیث سے
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی نے فرمایا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَأَبَاكُمْ وَاحِدٌ، لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى.
ترجمہ
اے لوگو بے شک تمہارا رب ایک ہی ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے
(2) جاہلی غیرت کا خاتمہ حدیث سے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَيْنِ.
ترجمہ
جس شخص نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گےجیسے دو انگلیاں قریب قریب ہوں ـ
سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في بر البنات حدیث نمبر 5147
(3) طبقاتی برتری کا خاتمہ حدیث سے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ
ترجمہ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے دشمن یا مصیبت کے حوالے تنہا چھوڑتا ہے۔
صحیح البخاري، كتاب المظالم، باب لا يَظْلِمُ المسلم المسلم
حدیث 2442