اظفر منصور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
ہر قوم کی پہچان اس کے پرچم میں چھپی ہوتی ہے، جو نہ صرف رنگوں اور نشانوں کا مجموعہ ہوتا ہے بلکہ ایک مکمل داستان، جذبے اور قربانیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پرچم وہ علامت ہے جو آپ کو اپنی جڑوں سے جوڑتا ہے، آپ کے دل میں وطن کی محبت کی آگ بھڑکاتا ہے، اور آپ کو اپنے نصب العین کی یاد دلاتا ہے۔ ہندوستان کا ترنگا بھی ایسی ہی ایک مقدس علامت ہے، جس کے رنگوں میں آزادی کی وہی روح بسی ہوئی ہے جو برسوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی دہائی دیتا ہے۔ یہ پرچم صرف ہوا میں لہرانے والا کپڑا نہیں، بلکہ ایک زندہ تاریخ، ایک قومی عزم، اور ایک روشن مستقبل کی امید ہے۔ یہ پرچم ایک کپڑے کا ٹکڑا یا رنگین نشان نہیں، بلکہ ایک تاریخ کا مجسمہ، ایک قوم کی پہچان، اور ایک عہد کا عکاس ہے۔ یہ علامت محض ہوا میں لہرانے سے اپنی بات نہیں کہتی بلکہ صدیوں کی قربانیوں، کامیابیوں اور جدوجہد کا خاموش اظہار ہے۔ یہ وہ نشان ہے جو قوموں کو ایک دھاگے میں پرو دیتا ہے اور ان کی سمت متعین کرتا ہے۔ جب بھی یہ پرچم بلند ہوتا ہے تو ہزاروں دل دھڑکتے ہیں، اور جب یہ جھکتا ہے تو قوم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔ہندوستان کا قومی پرچم، جسے ہم ترنگا کہتے ہیں، ایک دن میں وجود میں نہیں آیا۔ اس کے پیچھے برسوں کی سوچ، جدوجہد اور علامتی پیغام چھپا ہے۔ جدوجہدِ آزادی کے دنوں میں ایک ایسا جھنڈا چاہیے تھا جو سب کو یکجا کرے، جسے دیکھ کر آپ کے دل میں وطن کی محبت اور قربانی کا جذبہ جاگے۔ پہلی بار 1906 میں کلکتہ میں سبز، پیلے اور سرخ رنگ کے ایک پرچم کو آزادی کی تمنا کے اظہار کے طور پر بلند کیا گیا۔وقت کے ساتھ اس پرچم کا ڈیزائن بدلتا گیا، رنگوں کے معانی واضح ہوئے، اور یہ علامت صرف ایک نشان سے بڑھ کر تحریک کی روح بن گیا۔ 1921 میں پنگالی وینکیا نے گاندھی جی کو دو رنگوں—سرخ اور سبز—پر مشتمل ڈیزائن پیش کیا، جو ہندوستان کی دو بڑی برادریوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ گاندھی جی نے اس میں سفید رنگ شامل کرنے کی تجویز دی تاکہ امن اور دیگر مذاہب کی عکاسی ہو۔ پھر چرکھا شامل کیا گیا جو خود انحصاری، محنت اور سادگی کی علامت تھا۔1947 میں آزادی کے قریب، دستور ساز اسمبلی نے ترنگے کو قومی پرچم کے طور پر اپنایا، مگر چرکھے کی جگہ اشوک چکر رکھا گیا۔ یہ چکر انصاف، قانون اور ترقی کی نشانی ہے اور زندگی کی مسلسل حرکت کی علامت بھی۔ پرچم کے تین رنگ—زعفرانی، سفید اور سبز—ہر ایک میں گہرا فلسفہ سما ہوا ہے: زعفرانی قربانی اور حوصلے کی نمائندگی کرتا ہے، سفید امن اور سچائی کا، اور سبز امید اور خوشحالی کا۔ جب یہ پرچم لہرایا جاتا ہے، تو یہ محض کپڑا نہیں لہراتا بلکہ ان سپاہیوں کی قربانی کی یاد دلاتا ہے جو سرحدوں پر جان دیتے ہیں، ان کسانوں کی محنت کی تصویر کھینچتا ہے جو دھرتی کو سونا اُگلنے پر مجبور کرتے ہیں، اور ان نوجوانوں کے خواب سناتا ہے جو بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آزادی کے دن جب سورج طلوع ہوتا ہے اور لال قلعے کی فصیل پر یہ پرچم بلند ہوتا ہے، تو یہ لمحہ پوری قوم کے دل کی دھڑکن میں بدل جاتا ہے۔ یہ پرچم صرف خوشی کے لمحات کا ساتھی نہیں، بلکہ مشکل وقتوں میں بھی قوم کا حوصلہ اور اتحاد ہے۔ جب دشمن نے نظریں اٹھائیں، تو یہ پرچم ہر محاذ پر حوصلہ بن کر کھڑا رہا۔ یہ جنگ کے میدان میں زخمی سپاہی کے سرہانے لہرا کر جیت کی امید دیتا ہے، قدرتی آفات میں مصیبت زدہ انسانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم ایک ہیں، ساتھ ہیں، اور ہارنے والے نہیں۔آج جب آپ اس پرچم کو دیکھیں تو یاد رکھیں کہ یہ صرف ماضی کی قربانیوں کا قصہ نہیں سناتا بلکہ حال اور مستقبل کی ذمہ داریاں بھی یاد دلاتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اگر آپ اسے بلند رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے کردار کو بلند رکھیں، اگر چاہتے ہیں کہ یہ کبھی سر نہ جھکائے تو اپنی غیرت اور اتحاد کو سر نہ جھکائیں۔ ترنگا صرف ایک قومی نشان نہیں، یہ ایک عہد ہے۔ ایک وعدہ ہے جو آپ اپنے دل میں کرتے ہیں کہ آپ امن قائم رکھیں گے، انصاف کا ساتھ دیں گے، اور اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دیں گے۔ لہٰذا جب بھی یہ پرچم آپ کے سامنے لہرائے، صرف سلام نہ کریں بلکہ دل میں یہ عزم تازہ کریں کہ آپ اس کے رنگوں کی حفاظت کریں گے۔