حضرت امیر شریعت نے خطبہ مسنونہ کے بعد تقریر کا آغاز یوں فرمایا:
خطاب تاریخی اجتماع ، منعقدہ 26؍اپریل 1946ء
حضرات! آج میں نے کوئی تقریر نہیں کرنی؛ بلکہ چند حقائق ہیں، جنھیں بلا تمہید کہنا چاہتا ہوں۔ آئینی اور غیر آئینی دنیا میں خواہ اس علاقے کا تعلق ایشیا سے ہو، یا یورپ سے، اس وقت جو بحث چل رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہندستان کی ہندو اکثریت کو مسلم اکثریت سے جدا کر کے برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟مجھے پاکستان بن جانے کا اتناہی یقین ہے، جتنا اس بات پر کہ صبح کو سورج مشرق ہی سے طلوع ہوگا؛ لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہو گا، جو دس کروڑ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں ہیں۔ ان مخلص نو جوانوں کو کیا معلوم کہ کل اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بات جھگڑے کی نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ سمجھا دو، مان لوں گا، لیکن تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بلا کا تضاد ہے اور بنیادی فرق ہے۔ اور اگر مجھے کوئی اس بات کا یقین دلا دے کہ منقسم پاکستان کے کسی قصبے کی گلی میں کسی شہر کے کسی کوچے میں حکومت الہیہ کا قیام اور شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونے والا ہے، تو رب کعبہ کی قسم! آج ہی میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں؛ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جو لوگ اپنے جسم پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے،وہ دس کروڑ افراد کے وطن میں کس طرح اسلامی قوانین نافذ کر سکتے ہیں؟ یہ ایک فریب ہے اور میں فریب کھانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔“
پھر آپ نے اپنی کلہاڑی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر تقسیم کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کا نقشہ سمجھانا شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ادھر مشرقی پاکستان ہو گا اور اُدھر مغربی پاکستان ہو گا۔ درمیان میں ہندو کی چالیس کروڑ کی آبادی ہوگی اور وہ حکومت لالوں کی حکومت ہوگی۔
کون لالے؟ لالے، دولت والے لالے، ہاتھیوں والے لالے، لالے مکار لالے ہندو اپنی مکاری اور عیاری سے پاکستان کو ہمیشہ تنگ کرتے رہیں گے، اسے کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس تقسیم کی بہ دولت آپ کا پانی روک دیا جائے گا، آپ کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آپ کی یہ حالت ہوگی کہ بہ وقت ضرورت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی اور مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کی مدد سے قاصر ہوگا۔ اندرونی طور پر پاکستان میں چند خاندانوں کی حکومت ہوگی اور یہ خاندان زمین داروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خاندان ہوں گے۔ انگریز کے پروردہ فرنگی سامراج کے خود کاشتہ پودے، سروں، نوابوں اور جاگیرداروں کے خاندان ہوں گے، جو اپنی من مانی کارروائی سے ہر محب وطن اور غریب عوام کو پریشان کر کے رکھ دیں گے۔ غریب کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، ان کی لوٹ کھوٹ سے پاکستان کے کسان اور مزدور نان شبینہ کو ترس جائیں گے۔ امیر روز بہ روز امیر تر اور غریب روز بہ روز غریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔“
رات کافی بھیگ چکی تھی، حضرت امیر شریعت اپنی سیاسی بصیرت کے موتی بکھیر رہے تھے اور مستقبل سے نا آشنا مسلمان منھ کھولے انجانے واقعات کو حیرت و استعجاب کیعالم میں سن رہے تھے۔ حضرت امیر شریعت نے ہندو سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
پاکستان کی بنیاد ہندو کی تنگ نظری اور مسلمان دشمنی پر استوار ہوئی ہے۔ دولت سے پیار کرنے والے ہندو نے گائے کی پوجا کی، پیپل مہاراج پر پھول چڑھائے، چیونٹیوں کے بلوں پر شکر اور چاول ڈالے، سانپ کو اپنا دیوتا مانا؛ لیکن مسلمان سے ہمیشہ نفرت کی، اس کے سائے تک سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ذات پات کے پجاری بڑے سے بڑے ہندونے اچھوتوں پر، اپنے مندروں کے دروازے کھول دیے؛ لیکن مسلمانوں کے لیے اپنے دل کے دروازے بھی وانہ کیے۔ آج اسی تعصب، تنگ نظری اور حقارت آمیز نفرت کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان اپنا الگ وطن مانگنے پر مجبور ہوا ہے، اور کانگریس یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی مصلحتوں کی بنا پر خاموش رہی۔ اگر کانگریسی راہنما ہندو مہا سبھائیوں، جن سنگھی انتہا پسندوں اور اسی قسم کی تحریکوں کو اپنے اثر سے ختم کر دیتے اور وہ کر بھی سکتے تھے، تو مسلم لیگ کے یہاں پنپنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ کوڑھ کانگریس کے اندر سے پھوٹا ہے۔ جو بیماری جسم کے اندر سے پیدا ہو، اُس کا علاج محض باہر کے اثرات کو تبدیل کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ کانگریس نے ہمارے ساتھ بھی نباہ نہ کیا۔ اگر مسلم لیگ سے بگاڑ پیدا کیا تھا، تو نیشنلسٹ مسلمان کی بات ہی مان لی ہوتی؛ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ہوا کیا کہ آج اس قدر قربانیوں کے باوجود دونوں فرنگی کو اپنا ثالث مان رہے ہیں۔ کون فرنگی؟ جو ہندستان کے لیے بھی بھی صحت منداور انصاف پر مبنی فیصلہ ہر گز نہیں دے سکتا۔ اے کاش! کانگریس نے ہم سے ہی نہیں، تو مسلم لیگ سے ہی بنائی ہوتی، تاکہ آپس میں مل بیٹھ کر کوئی صحیح حل تلاش کر لیا جاتا۔
رات کافی گزر چکی تھی، سحر قریب تھی اور حضرت امیر شریعت بے تکان بولے جا رہے تھے، کیا مجال کہ ایک متنفس بھی کہیں سے ہلا ہو، یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جیتے جاگتے انسان نہیں؛ بلکہ انسان شکل وصورت کی مورتیاں پڑی ہوئی ہیں۔ آخر میں حضرت امیر شریعت نے زور دار آواز میں کہا کہ:
کانگریس اور مسلم لیگی دونوں سنو! ؎
میر جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
یاد رکھو! کہ اگر آج تم باہم بیٹھ کر کوئی معاملہ طے کر لیتے، تو وہ تمھارے حق میں بہتر ہوتا، تم الگ الگ رہ کر باہم شیر و شکر رہ سکتے تھے، مگر تم نے اپنے تنازعے کا انصاف فرنگی سے مانگا ہے اور وہ تم دونوں کے درمیان بھی نہ ختم ہونے والا فساد برپا کر کے جائے گا، جس سے تم دونوں قیامت تک چین سے نہیں بیٹھ سکو گے اور آئندہ بھی تمھارا آپس کا کوئی ایسا تنازعہ باہمی گفتگو سے کبھی بھی طے نہیں ہوسکے گا۔ آج انگریز سامراج کے فیصلے سے تم تلواروں اور لاٹھیوں سے لڑو گے، تو آنے والے کل کو توپ اور بندوق سے لڑو گے۔ تمھاری اس نادانی اور من مانی سے اس برصغیر میں جو تباہی ہوگی، عورت کی جو بے حرمتی ہوگی، اخلاق اور شرافت کی تمام قدریں جس طرح پامال ہوں گی، تم اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے؛ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں وحشت و درندگی کا دور دورہ ہوگا، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہوگا، انسانیت اور شرافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اور کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوگی، نہ مال، نہ جان، نہ ایمان اور اس سب کا ذمہ دار کون ہوگا؟ تم دونوں! (بہت خوب) لیکن اس وقت تم یہ نہیں دیکھ سکتے، تمھاری آنکھوں پر اپنی خود غرضی اور ہوس پرستیوں نے پردے ڈال رکھے ہیں اور تم ایک ایسے شخص کی مانند ہو کہ جو عقل تو رکھتا ہو؛ مگر صحیح سوچنے سے عاری ہو، کان ہیں؛ مگر سن نہیں سکتا، آنکھیں ہیں؛ مگر بصارت چھن چکی ہے، اس کے سینے میں دل تو دھڑک رہا ہے؛ مگر احساسات سے خالی محض گوشت پوست کا ایک لوتھڑا۔“
ابھی تقریر جاری تھی کہ صبح کی اذان کی آواز کانوں میں پڑی اور حضرت امیر شریعت نے دہلی والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
دہلی والو سن رکھو! میری یہ باتیں یاد رکھنا، حالات بتا رہے ہیں کہ اب زندگی میں جیتے جی کبھی بھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ ؎
اب تو جاتے ہیں مے کدہ سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
حضرات! یہ تھے وہ چند حقائق، جن کو میں بغیر کسی تمہید کے کہنا چاہتا تھا، سو آج میں نے کہہ دیااور اب ؎
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
ماخوذ: از امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی پیشین گوئی: شائع کردہ: چودھری محمد اکرم صاحب، اچھرہ، لاہور۔ بہ حوالہ: چراغ محمد: از قاضی محمد زاہدالحسینی،ص/394-398۔