محمد نظام الدین قاسمی بانی و مہتمم جامعۃ الہدی
جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ سب ایڈیٹر جہازی میڈیا
امام و خطیب مسجد گرین پارک دہلی
9568404747
(قسط اول میں ہیٹ کرائم کی تعریف ، آغاز اور مثال پڑھے تھے ، قسط دوم میں بعثت نبوی سے قبل عرب قبائل کے ہیٹ کرائم کو پڑھا ، قسط ثالث میں بعثت نبوی اور عرب قبائل کے ہیٹ کرائم کا خاتمہ اور اب چوتھی قسط میں وصال نبوی کے بعد دوبارہ ہیٹ کرائم کا آغاز اور عالمی توسیع کو پڑھیں گے)
ابتدائیہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ماہ ربیع الاول اگیارہ ہجری اور عیسوی کے اعتبار سے ماہ جون چھ سو بتیس میں ہوا ،( 11/ ہجری مطابق 632ء )
اس کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوا جسے خلافتِ راشدہ بھی کہا جاتا ہے ، تقریبا تیس سال تک خلافت راشدہ کی حکومت رہی اور یہ تیس سالہ دور خلافت ہیٹ کرائم سے پاک بھی رہا ، لوگ اپنی جان ، مال اور عزت کے اعتبار سے مطمئن بھی رہے ، اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن خلفائے راشدین نے قرآن و سنت پر مظبوطی سے عمل کیا اور ہیٹ کرائم کو بڑھنے کا موقع نہیں دیا، اس کے بعد
(41/ ہجری مطابق 661 عیسوی) میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صلح کے بعد خلافت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی اور اسی سال سے بنو اُمیہ کی حکومت کا باضابطہ آغاز ہوا۔
بنو اُمیہ تعارف حکومت اور ہیٹ کرائم
تعارف
بنو اولاد یا نسل کو کہتے ہیں ، امیہ عرب قبیلے میں ایک شخص کا نام تھا۔ دونوں مل کرکے بنوامیہ ہوا اور ہورے جملہ کا مطلب ہوا امیہ کی اولاد ـ
امیہ کون تھا؟
اُمیہ قریش کے مشہور سردار اُمیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھے، عرب کے قبیلہ قریش میں دو بڑی شاخیں تھیں ، ایک بنو ہاشم جن میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، دوسری بنو اُمیہ جن میں سے بعد میں خلفاء بنو اُمیہ ہوئے
عرب قبیلہ میں بنو اُمیہ کی سیاسی حیثیت
جاہلیت کے زمانے میں بھی بنو اُمیہ قریش کا ایک طاقتور اور سیاسی طور پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا خاندان تھا، ابتداء اسلام میں زیادہ تر بنو اُمیہ اسلام کے مخالف تھے لیکن فتح مکہ کے بعد اسلام میں شامل ہوگیے تھے، حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کا تعلق بنو اُمیہ سے تھا اس لیے اس خلافت کو خلافتِ بنو اُمیہ کہا جاتا ہے اور اسے حکومت بنو امیہ بھی کہتے ہیں ـ
حکومت بنو امیہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ 40 ہجری میں پیش آیا اور اس کے بعد مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مان لیا
دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت شام میں والی تھے اور وہ پہلے سے ہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کو سزا دینے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا تھا کہ پہلے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کو سزا دی جائے، پھر خلافت پر بات ہوگی ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف تھا کہ خلافت مسلمانوں کا بنیادی حق ہے، قاتلوں کو سزا دینا بعد میں بھی ممکن ہے ، اس لیے پہلے خلافت پر بات ہو اور یہ اختلاف ذاتی یا حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک حدیث پر عملی تصدیق تھا ، جیسا کہ حدیث میں ہے
الخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میرے بعد خلافت یعنی نبوّت کے طریقے پر خلافت تیس سال تک رہے گی، پھر وہ حکومت کاٹ کھانے والی بادشاہت بن جائے گی۔
(حوالہ ابو داؤد حدیث نمبر 4646)
اس کی تفصیل کچھ اس سے طرح ہے ـ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 2 سال 3 ماہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 10 سال 6 ماہ،
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 12 سال ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 4 سال 9 ماہ ، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت تقریبا 6 ماہ ،کل مدت خلافت تیس سال ـ گو یا کہ ایک طرف حدیث پر مکمل عمل بھی ہو چکا تھا اور دوسری طرف حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سیاسی بصیرت اور امت کی خیرخواہی کو ترجیح دیتے ہوئے خلافت چھوڑ دی ، اسی وجہ سے اس سال کو عام الجماعة یعنی مسلمانوں کے اکٹھا ہونے کا سال کہا جاتا ہے اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے حکمران بنے اور تقریبا 90 سال تک ان کی حکومت باقی رہی ، جس کی تاریخی مدت
(41 ھ سے 132ھ ) اور ( 661 ء سے 570 ء تک ہے اور کل مدت 90 سال یے ـ
حکومت بنو امیہ اور ہیٹ کرائم
بنو امیہ کے دور حکومت اور سیاست میں قبائلی اور خاندانی عصبیت نے دوبارہ ابھرنا شروع کر دیا تھا
حصول اقتدار کی کوششیں جاری ہو گئی تھیں ، مخالفین پر سختی ہونے لگی تھی ، طاقت کے دم پر فیصلے ہونے لگے تھے ، حکومت برھانے کے لیے مخالف قبائل پر سختیاں ہونے لگیں ، اور دبے پاؤں ایک مرتبہ پھر سے ہیٹ کرائم دستک دینے لگا اور پھر 61 ہجری میں کربلا کا وہ خونی سانحہ پیش آیا جو اس وقت کے اعتبار سے ہیٹ کرائم کی سب سے بڑی مثال تھی، جہاں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ان کے اہلِ بیت کو شہید کیا گیا تھا ، اس سانحہ کی اصل وجہ نفرت ، تعصب اور طاقت کا غلط استعمال تھا، جسے ہم ہیٹ کرائم کی ابتدائی شکل بھی کہہ سکتے ہیں ، چونکہ جو جرائم نفرت کی بنیاد پر ہو وہ ہیٹ کرائم ہوتا ہے مذکورہ تنقیح کا مقصد صرف ہٹ کرائم کا تفہیم ہے نہ کہ تنقیص
نوٹ : اس عنوان کا بقیہ حصہ اس کے بعد