کشمیر کا چار روزہ سفر امانت علی قاسمی استاذ دارالعلوم وقف دیوبند پہلی قسط بچوں کا اصرار تھا کہ کہیں ان کے ساتھ تفریحی سفر کیا جائے،ویسے بھی ہم لوگ تدریسی و تصنیفی کاموں کی وجہ سے بچوں کو وہ وقت نہیں دے پاتے ہیں جو ان کا حق ہے یہ ایک موقع ہوتاہے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا پھر ہجوم کار کی وجہ سے ذہن و دماغ پر ایک قسم کا بوجھ محسوس ہوتاہے اور سیر و تفریح کے ذریعہ قلب و ذہن کو تازگی مل جاتی ہے اس لئے ششماہی کی چھٹی میں کشمیر کا چار روزہ سفر طے کیاگیا۔سیرو سیاحت کے لئے کشمیر سے اچھی اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے ۔ندیر بنارسی نے کہاتھا:جنت کی تصویر کو دیکھوآؤ ذرا کشمیر کو دیکھو لیکن کشمیر کے سیاسی حالات ،اور جموں میں آئے بھیانک سیلاب کی وجہ سے معاملہ تذبذب کا شکار ہوگیا پھر عین چھٹی سے دو دن قبل اللہ کا نام لے کر ٹکٹ نکال لیا گیا، اب مرحلہ تھا کہ وہاں کے قیام اور تفریحی مقامات کے نظام کوکس طرح مرتب کیا جائے ،اس سلسلے میں رفیق گرامی حضرت مولانا مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی کی مخلصانہ کوششیں سفرسے پہلےاور دوران سفر جاری رہیں،کشمیر سے تعلق رکھنے والے دارالعلوم وقف دیوبند کے دو فاضل مفتی محمد سید ناصر الاسلام اندرابی اور مفتی عرفان اندرابی ،لولابی نے سفر کے نظام کو بہتربنانےکی بھرپور کوشش کی اور ہر طرح سے آرام و راحت کا خیال کیا،ہروقت ساتھ رہے اور ہمارے عزیز دوست مولانا ظہور احمد شاہ قاسمی نے بھی سفر کی سہولت بہم پہونچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ان حضرات کی کوششوں سے تفریحی سفر تبلیغی سفربھی بن گیا۔ پیر کی رات سفر کا آغاز ہوا، جموں سے بذریعہ کار ہم لوگ کٹرہ اسٹیشن پہونچے یہاں سے ’’وندے بھارت‘‘ ٹرین کے ذریعہ سری نگر پہونچے اسٹیشن پر مفتی ناصر الاسلام صاحب اور آج کے ہمارے میزبان جناب قوام الدین صاحب پہلے سے موجود تھے،انہوں نے ہمارا والہانہ اسقبال کیا ہے، اسٹیشن سے ہم ان کے گھر گئے۔کشمیری ضیافت یہاں انہوں نے کشمیری روایت کے مطابق ہماری ضیافت کی،کشمیر کی مہمان نوازی مشہور ہے ،لوگ مہمان کے لیے دل نکال کر رکھ دیتے ہیں، اس میں دسترخوان سے لے کر کھانے اور ہاتھ دھلانے کی تمام تر روایات شامل تھیں ،رات کے کھانے میں بھی کشمیری ضیافت کے مطابق کافی تنوع تھا ۔اس مہمان نوازی میں الفت ومحبت کی خوشبوتھی،خلوص وجذبات کی روانی بھی،کشمیری روایات و اقدار کی چاشنی تھی ،عظمت واحترام کی دل فریب ادائیں تھیں اورعقیدت وارادت کی قابل رشک فراوانی بھی ،معمر خواتین نہ اردو بول سکتی ہیں اور نہ سمجھ سکتی ہیں لیکن مہمانوں کے احترام و اکرام میں ،ان کا اپنے جذبات کے اظہار کرنا واقعی قابل رشک تھا۔کشمیر میں جہاں چلے جائیے کشمیری اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہیں اور ضیافت کا حد درجہ اہتمام کرتے ہیں ، کشمیری مہمان نوازی کے سلسلے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:ذرہ ذرہ ہے میرے کشمیر کا مہماں نواز راہ کے پتھرکے ٹکروں نے دیا پانی مجھےکشمیر کی رعنایاں رات قیام کے بعد صبح کشمیر گھومنے کا پروگرم تھا ،کشمیر جنت نظیر ہے، قدرتی مناظر،فطری کشش، جمال جہاں آراء ،پرکیف فضا ،خوش گوار موسم ،بلند و بالا پہاڑ،گھنے جنگلات ،جاری آبشار ،بہتی ندیاں،آنکھوں کو ٹھنڈک دیتے ہیں، قلب و نظر کو سکون پہونچاتے ہیں، پہاڑوں پر چادر کی طرح تنی ہوئی اونچی درختوں، اور جاری چشموں نے حسن و جمال کی ساری حدیں پار کر دی ہیں، کشمیر میں قدرت کے وہ انمول تحفے ہیں جو بے مثال ہیں، لا جواب ہیں، قلب و نظر کو فرحت بخشتے ہیں، کشمیر میں پہاڑ ہیں لیکن اس سے وحشت و دہشت کا اظہار نہیں ہوتاہے بلکہ اس میں لاجواب حسن ہے ،اس پر بلند وبالا خوشمنا درختوں کی کشیدہ کاری کی ہوئی ہے اس لیے پہاڑ ہرے بھرے ہیں جسے دیکھیے تو دیکھتے رہنے کو جی کرتاہے،بلندپہاڑوں کی دلفریباں ،آپ کے قلب و نظر کو فروحت وسرور سے بھر دیں گی ،کشمیر میں پانی ہے ،جھیل کا پانی ،جھرنوں کا پانی ،ندی ونالوں کا پانی ،دریا کا پانی ،صفا شفاف پانی ،بہتے آبشاروں کا پانی دیکھ کر ،ان کا رنگ و روپ دیکھ کر آپ کا دل مچل جائے گا،پہلگام میں بہتے آبشاروں کے حسن و جمال کا خوب مظاہرہ ہوتاہے ،کشمیر میں درخت ہیں ،ہربھرے درخت ،خوبصورت درخت ،بلندبالا درخت ،وہ درخت جس پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتاہے،چنار کاقومی درخت ،وہ درخت جوپھل بھي دیتے ہیں وہ درخت جو دلکشی و رعنائی میں اپنی مثال نہیں رکھتے ،وہ درخت بھی ہیں جن میں کہسار کی بلندی ہے ،سبزہ ہے ،ہریالی ہے،طراوت و تازگی ہے،شادابی اور رعنائی ہے،کشمیر میں پھول ہیں جن میں حسن ہے ،خوشبو ہے،چمک ہے ،خوشنمائی ہے،وہ پھول رنگ برنگے ہیں،ان میں شوخی بھی ہے اور آنکھوں کی تازگی کا سامان بھی ۔وہاں پھل ہیں، سیب کے گھنے باغات ،انجیر کے درخت ہیں ،اخروٹ کے درخت ہیں، بادام کی پیداوارہے ، زعفران کی کھیتی،مصالحہ جات کی افزائش ہے غرضیکہ کشمیر میں قدرت کے انمول خزانے ہیں، جس نے واقعی کشمیر کو جنت ارضی بنا دیا ہے ۔شاعر کی زبان میں کشمیر کی ارض حسیں فطرت کا رنگیں معجزہ فردوس بر روئے زمین ہاں ہاں ہمیں است و ہمیںجس کے جبل ہیں سرمگیںمیوے بہ کثرت ہیں جہاں شیریں مثال انگبیںہر زعفران کے پھول میں عکس جمال حور عیںاس خطہ نیرنگ میں ہر اک فضا حسن آفریںہر شئے میں حسن زندگی دل کش مکاں دل کش زمیں واقعی کشمیر کی زمین میں دلکشی ہے ،جاذبیت ہے ،قلب و جگر فرحت و انبساط سے بھر جاتاہے ،یہاں کے کوہساروں اور مرغ زاروں سے طبیعت کھل جاتی ہے ،یہاں کی اپنی تہذیب ہے ،یہاں کی قدیم روایات ہیں، مہمان نوازی میں یہاں کے لوگ بے مثال ہیں، خوش اخلاقی، و خوش خصالی میں یہاں کے لوگ منفرد ہیں۔جاری ———-