کام کرنے کے لحاظ سے دنیا میں انسان بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں ، ایک جو ذاتی کام کے ساتھ دین اور سماج کے لیے بھی کچھ کررہا ہوتا ہے اور دوسرے جو صرف ذاتی طور پر اپنے فائدے کے لیے کام پے لگا ہوا ہے، لیکن دینی اور سماجی کاموں سے کٹا ہوا ہوتا ہے، اس میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو ذاتی کام کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے اور مال جان وقت اور مخالفت نہ کرتے اور مفید مشورہ کے ذیعہ ساتھ دیتا ہے، دوسرے وہ لوگ جو مزاج نا ملنے،ان کو اہمیت نا دینے،کسی خاص موقع پر نا پوچھنے ، کسی بات یا مشورہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کام کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں،الزام لگا کرکے بدنام کرتے ہیں ، حقیقت کو چھپا کر کے سماج میں غلط فہمی پھیلاتے ہیں زبان اور قلم کا غلط استعمال کرتے ہیں پہلی قسم کے انسان بالمقابل دوسرے قسم کے اس دنیا میں اکثر آزمائش اور ذہنی تکلیفوں میں گھرا ہوا ریتا ہے،جبکہ دوسری قسم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی میں مست ہوتے ہیں، کماتے اور کھاتے ہیں اور اپنی فیملی تک محدود رہتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو موقع ملتے ہی منفی سوچ کی وجہ سے موقع نکال کرکے پہلی قسم کے لوگوں کے خلاف بلاوجہ الزام لگانے لگتے ہیں اور یہ کام صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس کام کو یہ بندہ کیوں کررہا ہے، میری طرح مطلبی اور نکما کیوں نہیں رہتا ہے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی سماج کے لیے کوئی بھی اچھا کام نہیں کرسکتے ہیں اور دوسروں کو روکنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، بلکہ یہ کہیں تو غلط نا ہوگا کہ وہ اپنی عادتوں ، خصلتوں اور حد سے زیادہ حسد کی وجہ سے من جانب اللہ اس کام پر معمور ہوتے ہیں، اور اللہ پاک کے معمور کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے ذریعہ سے کام کرنے والے افراد کی آزمائش کریں ، امتحان لیں کہ وہ اپنے کام میں کتنے مخلص اور صبر کی صفت سے کتنے متصف ہیں،چونکہ انسانوں پر اچھے برے حالات کا آنا خدائی نظام کا حصہ ہے،خوشحالی ملنا، دولت کا آنا ، شہرت کا ملنا، مقبولیت کا میسر آنا، عہدہ اور منصب پر فائز ہونا بھی اللہ کی طرف سے ایک امتحان اور آزمائش ہے، اسی طرح سے کام میں محرومی، عہدہ سے برطرفی، ذلت و رسوائی ، بدنامی اور مال و دولت کا چھن جانا بھی ایک آزمائش اور امتحان ہے ـ گویا کہ انسانوں کو انسانی زندگی میں ہمیشہ ان دو آزمائشی مراحل میں سے کسی نہ کسی مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے، اس طرح کے حالات کو اللہ تعالیٰ نے دستوری شکل دیتے ہوئے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ ، وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَسورۃ الأنبياء آیت 35 *ترجمہ* اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی کے ذریعہ سے آزماتے ہیں، اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ *وضاحت* اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آزمائشی حالات کا آنا دستور خداوندی ہے ، اور اس کا حل بھی کلام خداوندی اور فرمان نبی میں موجود ہے ، اس لیے آج ہم اس تحریر میں وہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، تاکہ کام کرنے والے افراد کے لیے حالات سے مقابلہ کرنا بھی آسان ہو جائے ، اور اس پر عمل کرکے آگے بڑھنا بھی آسان ہو جائے ـ *خوش حالی ملنے پر کیا کریں* جب اللہ ہمیں صحت، دولت، عزت ، شہرت ، عہدہ اور منصب دے ، تو ہمیں دو کام ضرور کرنا چاہیے ـ *پہلا کام* پہلا کام یہ ہے کہ ہمیں مندرجہ ذیل قرآنی آیت اور حدیث پر مضبوطی سے عمل کرنا چاہیے ، *قرآنی آیت* وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ *ترجمہ* اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔ سورۃ النحل 114 *حدیث* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ*ترجمہ* مؤمن کے معاملے پر تعجب ہے، اس کا ہر حال اس کے لئے بھلائی ہے ، اگر اسے خوشحالی ملے اور شکر ادا کرے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے، اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کر ے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہے ـ مسلم 2999 *وضاحت* اس سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خوش حالی کی شکل میں دولت ، عہدہ اور منصب ملنے پر اس کا درست استعمال کرنا چاہیے ، اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے،کبھی بھی نا تو ان چیزوں کا غلط استعمال کرنا چاہیے اور نا ہی تکبر اور غرور کرنا چاہیے ـ *دوسرا کام* ہمیں دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ خوش حالی کی تمام چیزوں میں سے کسی بھی چیز کے متعلق یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ چیز میرے پاس ہمیشہ ہمیش رہے گی ، دل و دماغ میں یہ بیٹھا لینا چاہیے کہ یہ چیزیں ہمیشہ ہمیش کے لیے نہیں ہے ، پرمانینٹلی نہیں ہے ، یہ عارضی چیزیں ہیں ، ان چیزوں کا ذات سے الگ ہونا ایسے ہی یقینی ہے جیسے کہ موت کا آنا یقینی ہے ، اگر ایسا کریں گے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ چھن جانے پر افسوس اور غم نہ ہوگا اور جب افسوس اور غم نہیں ہوگا تو آگے کی زندگی کو خوش حال بنانا ، آگے بڑھنا ، زندگی میں سروائب کرنا بھی آسان ہوجائےگا ـ*جب یہ چیزیں چلی جائے تو کیا کریں* کبھی اللہ تعالیٰ یہ چیزیں واپس لے کرکے بھی آزماتا ہے،اگر مال کی کمی، صحت کا نقصان، اولاد کی جدائگی، عزت و شہرت میں کمی اور عہدہ سے برطرفی کے حالات آجائیں تو اس موڑ پر ہمیں کیا کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں بھی اللہ تعالی نے قرآن میں دستوری شکل میں ہماری رہنمائی کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سورۃ البقرہ 156 *ترجمہ* صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیں کہ جب ان پر مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔*وضاحت* جب اللہ کی طرف سے آزمائش ناگوار حالات آئیں اور نعمتیں چھن لیے جائیں، تو مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں پر ضرور عمل کرنا چاہیے ـ(1) دل کو یہ یقین دلادیں کہ یہ حادثہ ، حالات ،یا نقصان کسی انسان کے مکرو فریب سے اتفاقی طور پر نہیں آیا ہےبلکہ اللہ کے حکم اور حکمت سے ہوا ہے، چونکہ قرآن میں ہے ،وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَسورہ آلِ عمران 54*ترجمہ* اور (کفار نے) مکر کیا اور اللہ نے بھی (اپنی خفیہ تدبیر فرمائی) اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔*وضاحت* اس آہت سے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حالات بندوں کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں بس ، اللہ نے دنیا دارالاسباب ہونے کی وجہ سے ان مکاروں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کام پر لگا رکھا ہے ، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کفار مکہ کو لگا رکھا تھا (2) زبان سے شکوہ، بد دعا یا ناشکری کے الفاظ نہیں نکالنا چاہیے۔ بلکہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کو بار بار ہڑھنا چاہیے ـ(3) نماز اور دعا کی طرف کثرت سے رجوع کرنا چاہیے ، جیسا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ سورۃالبقرہ آیت 45یعنی صبر ،نماز اور دعا کا سہارا لے کرکے اللہ سے مدد طلب کریں ، چونکہ مصیبت میں سب سے بڑا سہارا نماز اور دعا ہی ہے۔ (4) دنیا کی حقیقت کو یاد رکھتے ہوئے یہ سوچیں کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے، اصل ٹھکانا آخرت ہے۔ کمی کوتاہی پر اللہ کی طرف رجوع کریں اور مستقبل میں نیے عزم و حوصلے کے ساتھ مثبت پلان تیار کریں ، مخالفت میں عملی اقدام کی کوشش بالکل بھی نا کریں چونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں بہت بڑا خیر چھپا ہوا ہے ، یہ سوچیں کہ جو چیز چلی گئی ہے اس میں شر ہونے کی وجہ سے اللہ نے واپس لے لی ہے ـ(5) جب حالات ناموافق اور مشکل ہو تو زبان اور قلم کا درست استعمال کریں،کسی کو برا بھلا نہ کہیں، اپنی قسمت کو نہ کوسیں ،الحمدللہ علی کل حال پر عمل کریں ، اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں،غصہ پر کنٹرول کرکے اپنے آپ کو میدان کا مضبوط پہلوان ثابت کریں جواب زبان سے نہیں عمل سے دینے کی کوشش کریں (6) حالات اور نقصان کے باوجود اپنی مصروفیت ، عمل،عبادت، نماز اور دینی اور دنیوی ہر طرح کے کام اور ذمہ داری کو جاری رکھیں، یہ سوچیں کہ جب اللہ کا حکم ہوگا تب خود ہی ہمارا کام رک جائے گا ، ذاتی طور پر نہ روکیں جیسا کہ ابھی حالیہ دنوں میں بہار جھارکھنڈ ،اڈیشہ کے امیر شریعت جناب حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے سخت ترین حالات ہونے کے باوجود امارت شرعیہ کے کسی بھی کام اور اپنے عمل کو رکنے نہیں دیا ، اگر ایسا کریں گے تو ایسا کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ سماج میں ایک مثبت اور مضبوط لیڈر کے طور پر ثابت ہوں گے، اس لیے پوری کوشش کریں کہ کام بند نہ ہو باقی اللہ کے حکم پر چھوڑ دیں ، اس دوران اس بات کی پوری کوشش کریں کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو، اور اپنے آپ کو مثبت رد عمل سے دوسروں کے لیے نمونہ بنا ئیں ـ(7) یہ یقین رکھیں کہ اس دنیا میں کچھ ملے یا نہ ملے اس صبر پر اللہ کے وعدے کے مطابق اجر ضرور ملے گاجیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍالزمر 10 کہ جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بے حساب و کتاب اجر عطا کریں گے ، یہ یقین رکھیں کہ اس دنیا میں ملے یا نہ ملے آخرت میں اتنا ملے گا کہ ہم گنتی بھی نہیں کر سکتے ہیں اور اس اجر کو حساب میں لانے کے لیے اللہ نے کوئی پیمانہ بھی نہیں بنایا ہے ـ
*محمد نظام الدین قاسمی* بانی و مہتمم جامعۃ الھدی جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ