از۔ ذکاوت حسین قاسمی مدرسہ امینیہ دہلی ۔۔
حضرت شَیماء رضی اللہ عنہا ہمارے نبی ﷺ کی رضاعی بہن تھیں، یعنی آپ ﷺ کی بچپن کی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی۔ ان کے ساتھ نبی ﷺ کا حسن سلوک اسلام میں رشتہ داری، وفا اور رحم دلی کی ایک شاندار مثال ہے۔
واقعہفتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کے کچھ لوگ قیدی بنے۔ ان میں حضرت شیماء رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:> "میں آپ کی رضاعی بہن ہوں، اور یہ میرا ثبوت ہے۔”نبی ﷺ نے فوراً ان کی بات سنی، ان کا ثبوت مانا، اور پھر نہایت محبت اور عزت سے پیش آئے۔— نبی ﷺ کا حسن سلوک۔1.آپ ﷺ نے انہیں فوراً آزاد فرمایا، اور فرمایا:> "اگر تم چاہو تو میرے ساتھ رہو، اور اگر چاہو تو اپنے قبیلے واپس چلی جاؤ۔”حضرت شیماء رضی اللہ عنہا نے اپنے قبیلے واپس جانے کا انتخاب کیا، تو آپ ﷺ نے ان کے لیے تحفے، سواری اور سامان مہیا کیا۔2. محبت اور عزت۔رسول اللہ ﷺ نے ان سے نہایت نرمی اور مسکراہٹ کے ساتھ گفتگو کی، اور ماضی کا رشتہ یاد کیا، حالانکہ وہ اس وقت قیدی تھیں۔ یہ ایک اعلیٰ اخلاقی مثال تھی۔3. رحم دلی اور وفا۔نبی ﷺ نے اپنے بچپن کا تعلق یاد رکھتے ہوئے، دشمن قبیلے کی قیدی کو عزت اور احترام کے ساتھ رخصت کیا۔(سیرت ابن ہشام،طبقات ابن سعد)
سبقرشتہ داری اور پرانے تعلق کا پاس رکھنا سنت ہے۔قیدیوں کے ساتھ بھی عزت اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔بہن بھائی کے رشتے میں چاہے رضاعی ہو یا نسبی، محبت اور عزت ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں وفا، احسان اور رحم دلی عملی طور پر نظر آتی ہے۔یہ ہے اسلام کی عملی تصویر ۔ہم سب محتاج عمل ہیں خدایا توفیق عطا فرما۔ آمین ۔یہ واقعہ معتبر سیرت اور حدیث کی کتب میں ملتا ہے۔ اس کے دو معتبر حوالے مندرجہ ذیل ہیں ۔1. سیرت ابن ہشامابن ہشام نے غزوۂ حنین کے واقعات میں حضرت شیماء رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا ہے:> فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ الطَّائِفِ، جَاءَتْهُ الشَّيْمَاءُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، أُخْتُهُ مِنَ الرَّضَاعِ … فَأَكْرَمَهَا، وَبَسَطَ لَهَا رِدَاءَهُ، وَخَيَّرَهَا بَيْنَ أَنْ تَقِيمَ عِنْدَهُ مُكْرَمَةً مَحْبُوبَةً أَوْ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى قَوْمِهَا، فَاخْتَارَتْ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى قَوْمِهَا، فَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَعَمًا وَغُلَامًا.(سیرت ابن ہشام، ج 4، ص 134، دار المعرفة)2.> أُسِرَتِ الشَّيْمَاءُ أُخْتُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الرَّضَاعِ يَوْمَ هَوَازِنَ، فَقَالَتْ: أَنَا أُخْتُكَ مِنَ الرَّضَاعِ، فَبَسَطَ لَهَا رِدَاءَهُ، وَأَكْرَمَهَا، وَخَيَّرَهَا … فَأَرْسَلَهَا إِلَى قَوْمِهَا وَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَعَمًا وَغُلَامًا.(طبقات ابن سعد، ج 8، ص 149، دار صادر) ۔۔