محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
9506600725
قرآن مجید میں سورۃ المؤمنون کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب ایمان و والوں کی چند اہم اور جامع صفات بیان فرمائی ہیں۔ ان صفات میں دوسری صفت یہ ہے۔۔
،،والذین ھم عن اللغو معرضون،،
"اور وہ لوگ جو لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں۔”
(سورۃ المؤمنون، آیت 3)
لغو (اللَّغْو) کی جامع و مانع تفسیر و تشریح
لغوی معنی:
لغو عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں:
"ایسی بات، کام یا فعل جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، جو بے مقصد، فضول، بے وزن، یا بے ہودہ ہو۔”
لغت میں "لغو” کی تعریف یوں کی گئی ہے:
،،ما لافائدة فيه،، وہ چیز جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔
الباطل من القول والفعل ، غلط، بے کار بات یا عمل۔
ما يُحقَر شأنه ويُستصغر ، جو معمولی، گھٹیا اور کم درجے کی چیز ہو۔
مفسرین کی آراء:
امام طبری (رحمہ اللہ):
فرماتے ہیں:
"یعنی یہ لوگ بے ہودہ اور فضول باتوں اور اعمال سے دور رہتے ہیں، ان میں مشغول نہیں ہوتے۔”
امام رازی (رحمہ اللہ):
"لغو سے مراد ہر وہ بات یا عمل ہے ،جو نہ دینی فائدہ دے اور نہ دنیاوی۔”
ابن کثیر (رحمہ اللہ):
"لغو کا مطلب وہ تمام باتیں ہیں جو جھوٹ، غیبت، چغلی، گالم گلوچ، بے مقصد ہنسی مذاق، فحش گوئی اور وقت کا ضیاع ہیں۔ مومن ان سب سے کنارہ کش رہتا ہے۔”
لغو کی اقسام:
لغو کا مفہوم وسیع ہے، اور یہ درج ذیل اقسام کو شامل کرتا ہے:
لغو القول، بے مقصد باتیں، جھوٹ، غیبت، فحش کلام، فضول مذاق
لغو الفعل وقت کا ضیاع، بے فائدہ مشغلے، بے ہودہ کھیل، گانا بجانا
لغو السمع، فحش گفتگو سننا، گانے سننا، لا یعنی بحث میں شریک ہونا
لغو النظر فحش مناظر دیکھنا، جھوٹی ویڈیوز یا فلمیں، غیر محرم کو دیکھنا
مومن کا طرزِ عمل
مومن وہ ہے، جو لغویات میں وقت ضائع نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنی زبان، آنکھ، کان اور عمل کو با مقصد بناتا ہے۔
وہ خاموشی کو عبادت بناتا ہے جب بولنے کی حاجت نہ ہو۔
وہ اپنی مجلسوں کو ذکر، علم، اور خیر خواہی سے مزین کرتا ہے۔
وہ اپنے وقت کا محاسبہ کرتا ہے کہ کہاں صرف ہو رہا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں:
. سورۃ الفرقان، آیت 72 میں ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
"اور وہ (رحمان کے بندے) جھوٹی بات کے گواہ نہیں بنتے، اور اگر لغو کے پاس سے گزریں تو باوقار طریقے سے گزر جاتے ہیں۔”
حدیث نبوی ﷺ میں یہ تعلیم ہے کہ
"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ”
(ترمذی)
"آدمی کے اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔”
"لغو سے اعراض” مومن کی ایسی صفت ہے جو اس کی شخصیت کو پاکیزہ، با مقصد، سنجیدہ اور بلند بناتی ہے۔ وہ:
فضول گوئی، بے ہودہ مذاق، جھوٹ، فحش باتوں سے دور رہتا ہے،
وقت کا ضیاع نہیں کرتا بلکہ اسے علم، عبادت، اور مفید کاموں میں لگاتا ہے،
اپنی محفلوں، گفتگوؤں اور رویوں میں شائستگی، وقار، اور سنجیدگی رکھتا ہے۔
یوں مومن ہر وہ چیز چھوڑ دیتا ہے جس میں نہ دنیا کا فائدہ ہو، نہ دین کا، تاکہ کامیاب و کامران ہو۔
علماء اور اہل علم لکھتے ہیں کہ :
” لغو ” ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ” لغویات ” ہیں۔
” معرضون ” کا ترجمہ ہم نے ” دور رہتے ہیں ” کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نکل جاتے ہیں، یا بہ درجہ آخر بےتعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَ اِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً۔ (الفرقان۔ آیت 72) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔
یہ چیز، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تلی مدت ہے، جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کو کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو ان ہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اسے تیار کرنے والی ہوں۔ اس کے نزدیک وقت ” کاٹنے ” کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔
علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خود ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کرسکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جاسکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کرسکتا، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کرسکتا، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالوں سے، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیہ، ” وہاں تو گوئی لغو بات نہ سنے گا "۔( تفہیم/ تفسیر سورہ مومنوں)
عروۃ الوثقیٰ میں
علامہ عبدالکریم اثری لکھتے ہیں:
ایمان والوں کی دوسری علامت کہ وہ لغو سے منہ پھیر لیتے ہیں :
٣۔ لغو کیا ہے ؟ ہر وہ بات جو شمار کے قابل نہ ہو یعنی جو غور وفکر سے نہ کی جائے ، اس کا ذکر سورة البقرہ کی آیت ٢٢٥ میں گزر چکا ہ کے ‘ اس جگہ سے مراد ہر وہ فعل ہے جو فضول اور بےفائدہ ہو۔ ایمان کی علامات ونشانات میں اس جگہ یہ ایمان کی دوسری علامت یا نشانی کے طور پر بیان ہوا ہے گویا جو شخص فضول ‘ بےفائدہ اور ثبت کام کرے وہ ایمان کے خلاف کرے گا ۔ اس لئے کہ ایمان والوں کو بتایا جا رہا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ بڑا ہی قیمتی ہے اس کے کندھوں پر ایک بہت بڑا بار کراں ہے اس لئے اس کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ بیکار اور فضول کاموں میں شرکت کرے ۔ معلوم ہوا کہ ساری لا یعنی باتیں اور ہر طرح کے کھیل وتماشے ‘ لعب ولہو لغو ہیں ۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت کو اس لغو کی چاٹ لگ چکی ہے جس کے ختم ہونے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی حالانکہ ایک سچے مسلمان کی شان یہ نہیں کہ ایک لمحہ بھی کسی غیر مفید بات کی طرف توجہ کرے لیکن سیروسیاحت کو لغو نہ سمجھ لیا جائے بلکہ اس کو تو اسلام نے ضروریات دین میں شمار کیا ہے تاہم اس میں اعتدال ضروری ہے ، مختصر یہ کہ دنیا کا ہر وہ کام جو فقط دنیا ہی تک محدود ہو اور آخرت میں نافع نہ ہو وہ بلاشبہ ” لغو “ ہے شور وغوغا اور ” رولا رپا “ ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن آج کل بدقسمتی سے ہمارے زندگی میں لغویات زیادہ معقولات ان کی نسبت بہت کم ہیں ۔
مولانا تھانوی رح نے لکھا ہے کہ لغو کا ادنیٰ گو مباح ہو مگر ترک اس کا اولیٰ اور موجب مدح ہے،اور معصیت لغو کا اعلیٰ درجہ ہے،اس کا ترک واجب ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ سچے اور اچھے مومن فضول و بیکار مشغلوں میں وقت ضائع نہیں کرتے کوئی دوسرا شخص لغو اور نکمی بات کہے تو ادھر سے منھ پھیر لیتے ہیں ۔ان کو وظائف عبودیت سے اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ ایسے بے فائدہ جھگڑوں میں اپنے آپ کو پھسائیں
چہ خوش گفت بھلول فرخندہ خو
چوبگزشت پر عارف جنگجو
گرایں مدعی دوست بشناختے
بہ پیکار دشمن نہ پرداختے