یکم نومبر1938ء
(۱) سیاسی تربیت گاہ:
قوموں کی ترقی اور برتری، سیاسی برتری پر موقوف ہوا کرتی ہے اور فی زمانہ، جب کہ سیاسی برتری اقتصادی برتری پر موقوف ہے، تو ضرورت ہے کہ عام مسلمان اقتصاد یات میں پیش پیش ہوں۔ اس مقصود کی تکمیل کے لیے، نیز اس لیے کہ دہریت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور عام مسلمانوں میں مذہبی احساس و جذبات پیدا کرنے کی صورت صرف یہی ہے کہ علمائے کرام کا قدم سیاسیات اور اقتصادیات میں تمام جماعتوں سے آگے ہو۔ وہ ان چیزوں کے بہترین ماہر ہوں۔ صنعت و حرفت سے واقفا نہ دل چسپی رکھتے ہوں۔ اپنے ملک اور تمام دنیا کے سیاسی اور اقتصادی مقتضیات کے بہتر مفکر اور بالغ النظر مبصر ہوں۔ لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آزاد مدارس عربیہ کے تعلیم یافت گان کی سیاسی اور اقتصادی تربیت کے لیے خودداری اور خود اعتمادی کے اصول پر ایک تربیت گاہ قائم کی جائے، جس میں:
(الف) اقوام عالم کی تاریخ، ان کی ترقی اور تنزل کے فلسفہ اور دنیا کی موجودہ سیاست، نیز اقتصادیات اور معاشیات کا مطالعہ اور مذاکرہ کرایا جائے۔
(ب) جغرافیہ، مساحت، حساب، تجارت وغیرہ، نیز ان زبانوں کی تعلیم دی جائے، جو سیاسی، یا تبلیغی اعتبار سے ضروری ہوں۔ اور جن کے حصول کے بعد وہ سرکاری اور غیر سرکاری سیاسی و اقتصادی اداروں میں رسوخ حاصل کرسکیں۔
(ج) فنون حربیہ کی تعلیم دی جائے۔ (جس حد تک قانون اجازت دیتا ہے)
(د) مندرجہ ذیل صنعتوں میں سے کسی ایک صنعت،یا جملہ صنعتوں کی تعلیم دی جائے، تاکہ ذرائع معیشت وسیع ہوں اور حضرات علما کا اقتدار روزافزوں ہو۔
پارچہ بانی، چرم سازی، اسلحہ سازی،نجاری، پریس، زراعت، ظروف سازی۔
(۲) مصارف:
(الف) سیاسی تربیت گاہ کے اساسی نکتہئ نظر، یعنی خودداری اور خود اعتمادی کے اصول کا لحاظ کرتے ہوئے، نیز اس کی ضروریات کے تکفل کے واسطے تربیت گاہ کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک تجارتی کمپنی قائم کی جائے، جو باقاعدہ گورنمنٹ میں لمیٹیڈ ہو۔ اس تربیت گاہ کی صنعتوں کے لیے جنس خام کا فراہم کرنا اور اس کی مصنوعات کو فروخت کرنا اس کمپنی کا کام ہوگا۔
(ب) سیاسی متعلم کوکم ازکم چار گھنٹہ یومیہ دار الصنائع میں کوئی صنعت کرنی ہوگی۔
(ج) ہر تربیت پانے والے کو دار الصنائع میں روزانہ اتنا کام ضرور کرنا ہوگا، جس کی اجرت اس کے وظیفہ کی برابر ہو۔
(د) ماہرین صنعت کی تن خواہ کمپنی کے ذمہ ہو گی۔ اور وہ کمپنی کے لیے چیزیں تیار کریں گے۔
(ھ) معلمین کی تن خواہ، یا دفعہ(۳) ضمن (ج) کے بموجب وظائف (جن کا ذکر آگے آرہا ہے)، یا متفرق ضروریات، مثلاً کتب و آلات برائے تعلیم وغیرہ کمپنی کے نفع کے لیے ایک چوتھائی سے ادا کی جائے گی۔
(و) حکومت اپنا فرض محسوس کرتے ہوئے اگر اس ادارہ کی امداد کرے، تو اس کی منظوری سے بھی انکار نہ ہوگا، بشر طیکہ تربیت گاہ کی پالیسی پر کوئی اثر نہ ہو۔
(ز) بجٹ کی باقی کمی، یا تربیت گاہ کی تعمیر کے لیے بوقت ضرورت مجلس منتظمہ کی منظوری کے بعد عام چندہ بھی مسلمانوں سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
(۳) وظائف تربیت یافت گان سیاسی تربیت گاہ
(الف) تربیت گاہ کے متعلمین کو ان کی صنعت کی اجرت کے بموجب وظیفہ دیا جائے گا، لیکن اگر یہ وظیفہ اُن کے اخراجات کے بموجب ہو، تو صرف ان کے مصارف کا متکفل ہوگا، ان کو نقد کچھ نہ دیا جائے گا۔ اور جیسے جیسے اُن کی صنعت کی اجرت ان کے وظیفہ کی مقدار سے بڑھتی رہے گی، فاضل رقم ان کو نقد ادا کی جائے گی۔
(ب) ہر متعلم کا ماہانہ خرچ، یعنی کھانا، ناشتہ، کپڑا، الات،کتب، دوا، روشنی، صفائی، دھلائی، حجامت وغیرہ کا خرچ…… ماہانہ قرار دیا جائے گا۔
(ج) ابتداءً چار ماہ تک اس وظیفہ کی متکفل خود تربیت گاہ ہو گی۔
(د) چار ماہ میں اختیار کردہ صنعت سے اس قدر واقفیت حاصل کر لینی ضروری ہوگی کہ کم از کم 5/یومیہ اس کے چار گھنٹے کے کام کی اجرت ہو سکے۔
(ھ) اگر چار ماہ میں اس قدر دسترس حاصل نہ ہو سکی، تو یہ بھی اس کے اخراج کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ اور اگر اس کا باعث لاپرواہی ہو، تو خرچ کردہ رقم اس متعلم سے وصول کی جائے گی۔ اور اگر ضرورت محسوس کی جائے، تو اطمینان کے لیے داخلہ کے وقت زرضمانت کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
(و) ہر داخلہ کے دقت اتنے ہی طلبہ کو لیا جائیگا، جتنے کا تکفل …… ماہانہ کے حساب سے تربیت گاہ کرسکے۔
(ز) مگر یہ کہ کوئی شخص چار ماہ تک اپنے مصارف کا خود متکفل ہو، تو اس کو داخل کیا جا سکتا ہے۔
(ح) جدید داخلہ سال میں دو مرتبہ ہو گا۔
دار الضائع کمپنی لمٹیڈ
(۱) مسلمانوں کی گھریلوصنعتوں کو محفوظ اور ترقی یافتہ کرنے اور ان میں مزید شوق اور دل چسپی پیدا کرنے کی غرض سے یہ کمپنی قائم کی جائے گی، جس کے ساتھ ایک سیاسی تربیت گاہ ہوگی۔ جس پر اس کمپنی کے نفع کا ایک چوتھائی صرف ہوگا اور ان حصص کا پورا نفع صرف ہوگا، جو تربیت گاہ کے لیے وقف ہوں۔
(۲) اس کمپنی کا سرمایہ سردست دس لاکھ روپیہ ہوگا۔ پھر اگر ڈائرکٹر ان کمپنی ضرورت سمجھیں، تو اس سرمایہ میں زیاتی بھی کر سکتے ہیں۔
(۳) کمپنی کے سر دست ایک لاکھ حصے ہوں گے۔ ہر حصہ کی قیمت دس ہوگی۔
(۴) کم از کم دو ہزار حصص کی فروخت یعنی بیس ہزار روپے کی فراہمی پرکمپنی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
(۵) کمپنی کے ماتحت سر دست مندرجہ ذیل شعبے ہوں گے:
پارچہ بافی، چرم سازی،اسلحہ سازی،نجاری، پریس، زراعت، ظروف سازی۔
(۶) جملہ دفعات کی تفصیل اس وقت بے کار ہے۔ اس لیے آئینی اور دستوری واقعات کو چھوڑ کر صرف ان دفعات کو تحریر کر دیا گیا، جن سے اصل منشا واضح ہوسکے۔ امید ہے کہ ناظرین کرام جلداز جلد جواب کی طرف توجہ منعطف فرمائیں گے۔
حضرت شیخ الہند مولانا سید حسین احمد صاحب۔ مولاناسید فخر الدین احمد صاحب۔ مولانا اعزاز علی صاحب۔ مولانا عبدالحق مدنی صاحب۔(قائد مرادآباد،بتاریخ،رمضان 1357ھ، مطابق نومبر1938ء، ص/6-8)