4/ نومبر1949ء
جمعیت علمائے ہند اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
جمعیت علمائے ہند ہندستان کی جنگ آزادی میں شروع سے بڑی دلیری کے ساتھ شریک رہی۔ اس نے دو قومی نظریہ کی ہمیشہ مخالفت کی۔ اس نے مسلم لیگ کا مقابلہ کیا۔ اگرچہ اس مقابلہ کے نتیجہ میں اس کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ الفاظ گذشتہ اتور کو مسٹر جے پرکاش نرائن نے ایک ورکر کے تحریری سوال کے جواب میں کہے، اس وقت وہ کلکتہ کے یونی ورسٹی ہال میں سوشلسٹ کارکنوں کے اجتماع میں تقریر کر رہے تھے۔سلسلہئ کلام جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جمعیت علما اب تک دو قومی نظریہ کی مخالف ہے، جمعیت کے ممبر ہندستان کی آزادی کی خاطر کتنی ہی دفعہ جیل خانے گئے ہیں۔ اس کے برعکس سیوک سنگھ ہندستان کی آزادی کا مخالف تھا اور جو لوگ آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے، ان کی مخالفت کرتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب سیوک سنگھ والے اس قسم کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ سیوک سنگھ اور جمعیت دونوں ہی مذہبی جماعتیں ہیں، پھر مختلف سیاسی جماعتوں میں جمعیت کی شمولیت پر خوشنودی اور ہماری شمولیت پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔ اس امر کا جواب دیتے ہوئے سوشلسٹ لیڈر نے کہا کہ جمعیت پر مسلمانوں کے مذہبی عالموں کی جماعت ہونے کی حیثیت سے جو اعتراض کیا جاتا ہے، وہ بالکل غلط ہے، کیوں کہ مہاتما گاندھی بھی مذہبی عالم تھے۔ (روزنامہ الجمعیۃ،6/ نومبر 1949ء)