راجہ مہندر پرتاپ کی تقریر
یہ تقریر جمعیت علمائے ہند کے سولھویں اجلاس عام منعقدہ 16-17-18؍اپریل 1949ء میں راجا مہندر پرتاپ سنگھ نے کی۔
راجہ مہندر پرتاب نے ہندو مسلم اختلافات کے مسئلہ پر تقریر کرتے ہوئے اس مسئلہ کو غیر ملکیوں کا پیدا کردہ بتایا۔ ماضی کی درخشاں مثالیں دے کر انھوں نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ انھوں نے کہا: ہندو مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے سے دور رہے۔ کبھی انھوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمان ہندوؤں کے متعلق کچھ نہیں جانتے، اسی طرح ہندو مسلمانوں سے بالکل ناواقف ہیں۔ ہندو مسلمانوں کو وحشی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے حاضرین پر زور دیا کہ صحیح اور سچے مسلمان، ہندو اور سکھ بنیں، کیوں کہ سب ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔
آپ نے افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں باغ بابر میں شاہ جہاں کی بنوائی ہوئی ایک مسجد کے نزدیک گورو نانک کا تکیہ ہے اور شاہ افغانستان سال میں ایک میلہ پر ہندوؤں کو وہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
آپ نے کہا کہ:میں نے علی گڑھ کے اسکول میں اے بی سے لے کر بی اے تک تعلیم پائی ہے، مگر میں نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے متعلق کچھ معلوم نہیں اور ہندوؤں کو اسلام کی تاریخ کا کچھ علم نہیں۔ اور اگر ہے تو یہ کہ یہ گندہ ہے، خراب ہے۔ یہ سب اس لیے کہ ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی۔
گاندھی جی کا ذکر
آپ نے گاندھی جی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہم نے گاندھی جی کو بہت بڑا لیڈر مانا ہے، وہ ملک کے رہنما تھے، سردار تھے۔ دنیا میں ان کی بڑی عزت کی گئی، مگر ہم نے دیکھا کہ گاندھی جی کے ہوتے ہوئے ملک تقسیم ہوا۔قتل و غارت ہوئی۔ کیاگاندھی جی کی یہی تعلیم تھی؟ کیاآپ کا یہی فرض تھا؟ کیا آپ نے اپنا فرض ادا کیا؟ میں کہتا ہوں: نہ ہندوؤں نے اپنا فرض ادا کیا اور نہ مسلمانوں نے۔ آج یہ کیا ہے کہ سکھ اور آریہ، یعنی خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کے دشمن بن گئے ہیں۔ یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کیا مرض ہے۔
اس کے بعد راجہ مہندر پرتاب نے اپنا پانچ نکاتی پروگرام پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ (۱) ہندستان کو دولت مشترکہ سے نکالیں گے۔ (۲) آریان بنائیں گے۔ ایران سے لے کر آسام تک، ہمالیہ سے لے لنکا تک ایک کریں گے۔(۳) عرب ممالک کو ایک کرکے اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے۔(۴) گاؤں گاؤں میں پنچایت قائم کرائیں گے۔ (۵) ایسے اسکول بنائیں گے، جہاں بچوں کو خدا کو پہچاننے کی تعلیم دیں گے۔
پہلی عارضی حکومت
آپ نے آخر میں کہا کہ: مجھے امید ہے کہ دیوبندی علما ہی ہمارے ساتھ اس کام میں مدد کریں گے، کیوں کہ اسی دیوبند کے مولانا عبیداللہ سندھی نے میرے ساتھ مل کر افغانستان میں ایک عارضی حکومت بنائی تھی، جس کے وزیراعظم مولانا برکت اللہ تھے۔ انھوں نے ہندستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اوربیداری کا اُس وقت پیغام دیا، جب مہاتما گاندھی بھی نہیں کرا رہے تھے۔ آخر میں آپ نے جمعیت علمائے ہند کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا۔
اسلام کا ذکر
مہاراجہ مہندرپرتاپ صاحب نے فرمایا: مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں اور اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہوں۔ جب سے میں ہندستان آیا ہوں، چین سے نہیں بیٹھا۔ لوگ میری داڑھی دیکھ کر مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ تم داڑھی رکھتے ہو، تو چوٹی کیوں نہیں؟
اسلام مکہ معظمہ سے نکلا اور ایک سو برس میں تمام عرب و عجم میں پھیل گیا۔ اسلام کے عروج کے زمانے میں دو بڑی طاقتیں اُبھریں: ایک عثمانی ترکوں کی حکومت اور دوسری مغلوں کی۔ آج ہم اس تاریخ کو بھول گئے ہیں، کیوں کہ انگریزوں نے تمام تاریخ کوختم کردیا۔
اکبر نے اپنے زمانے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب کر دیا تھا۔ میں کابل میں امیر حبیب اللہ کے ہاں رہا ہوں۔کابل میں گورونانک کا تکیہ ہے، یہ تکیہ باغ بہار میں ہے، جہاں پہنچ کر گوروجی نے بابر کو کہا کہ تم ہندستان جاکر بادشاہ بن جاؤ۔
انگریزوں کی پالیسی
انگریزوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ اورنگ زیب کو بدنام کیا گیا کہ اس نے باپ کو قید کیا اور بھائیوں کو قتل کیا۔ سات اسلامی ریاستوں کو فتح کیا۔ کیا یہ اورنگزیب ہندوؤں کا دشمن تھا؛ بلکہ وہ مسلمانوں کا دشمن ہوسکتا ہے۔ ہندوؤں کو اسلام کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ ہندوؤں کی نظر میں اسلام برا ہے۔، خراب ہے، حالاں کہ اسلام نہایت پاکیزہ اور بہتر مذہب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان کے رہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی یہ نہیں جانتے کہ ایک دوسرے کے نظریات کیا ہیں۔
اب ہم کو ان مسائل کو حل کرنا ہے، تو ہم سب کو سب کی باتیں جاننی چاہئیں۔ باقی حالات تو ایسے ہوئے کہ مہاتما جی کی موجودگی میں فسادات ہوئے کہ خون کی ندیاں بہ گئیں۔ گاندھی جی کے بعد حالات نہیں بدلے۔ آج بھی لوگ سوچتے ہیں کہ مسلمان ہند ستان میں کیوں ہیں؟ کیوں پاکستان نہیں جاتے۔ اس طرح کی باتیں شہروں سے زیادہ دیہاتوں میں ہیں۔ وہ بہت تکلیف میں ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اخلاق کا فقدان
کتنے تعجب کی بات ہے کہ دہلی اور کراچی میں لوگ عیش کر رہے ہیں۔ لیکن غریب مارے گئے۔ کوئی انگریز اس جنگ میں نہیں مرا۔ ہندو اور مسلمانوں میں کوئی اخلاق نہیں رہا۔ اسلام ایک وقت میں تمام دنیامیں چھایا رہا، اس لیے کہ اس نے ایک وقت اسلام نے گورونانک جی اور سوامی شردھانند کو موحد بنایا۔ اسلام تو دنیا میں توحید پھیلانے آیاتھا اور اسلام نے کہا تھا کہ خدا تمام دنیا کا بھلا چاہتا ہے، اور تمام نظام کو اس لیے بنایا گیاہے کہ تمام لوگ محبت سے رہیں۔ اسلام کا اعلان ہے کہ سچائی پھیلا نے کے لیے دنیا بھر میں پیغمبربھیجیگئے۔بعض کے نام بتائے گئے۔ اسی طرح تمام مذاہب کے لیے پیش گوئیاں کی ہیں کہ ہرقوم میں نیکی پھیلانے کے لیے رسول آئے۔ رشی آئے ہیں۔ اس چیز کی آج تبلیغ کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی تعلیم پر ہے، اور سب کو بتائیے کہ جو رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے ہیں، وہ سچے ہیں۔ اس طرح کی تبلیغ سے سچی دوستی پیدا ہوگی اور مسلمان تمام دنیا میں نیکی پھیلانے کے لیے آئے ہیں۔مسلمان کو سچا مسلمان بننا چاہیے۔ عیسائی کو سچا عیسائی بننا چاہیے۔ ہندو کو سچا ہندو بننا چاہیے۔
(روزنامہ الجمعیۃ، 21/اپریل 1949ء)