تقسیم ہند کے پلان پر ہندستانی زعما کی منظوری
ماؤنٹ بیٹن نے 2/ جون 1947ء کو کانگریس، مسلم لیگ اور سکھوں کے لیڈروں کی ایک میٹنگ کی۔ کانگریس کی طرف سے پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، جے بی کرپلانی۔ مسلم لیگ کی طرف سے محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں، سردار عبد الرب نشتر۔ اور سکھ کی طرف سے سردار بلدیو سنگھ نے نمائندگی کی۔برطانیہ کی طرف سے لارڈ ماونٹ بیٹن، لارڈ سمے (وائسرائے کا اعلیٰ مشیر)اور سرایرک میویل موجود تھے۔ اس میٹنگ میں بیٹن نے تقسیم ہند کے پلان کو منظور کرلینے پر بحث و گفتگو کی۔ پھر اگلے دن 3/ جون 1947ء کو ان سبھی نمائندگان کو صبح دس بجے وائسرائیگل لاج نئی دہلی میں مدعو کیا اور ”تقسیم کے انتظامی مسائل“ کے عنوان کا چونتیس صفحات پرمشتمل ایک دستاویز دیتے ہوئے اسے منظور کرلینے کے لیے کہا، جس کا مکمل متن درج ذیل ہے:
ماونٹ بیٹن پلان:تقسیم کے انتظامی مسائل
ڈاکومنٹ نمبر (45)
۱۔ ”20 فروری1947ء (ڈاکومنٹ نمبر 438، ٹرانسفر آف پاور جلد نہم) کو حکومت برطانیہ نے اس عندیہ کا اظہار کیا تھا کہ وہ برطانوی ہندستان کا اقتدار جون 1948ء تک ہندستانیوں کو منتقل کر دے گی، حکومت برطانیہ کو امید تھی کہ ملک کی بڑی پارٹیاں کا بینہ مشن منصوبے کو قابل عمل بنانے میں تعاون کریں گی اور ایک آئین تشکیل دیں گی، جو تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوگا، لیکن یہ امید بر نہ آئی۔
۲۔ مدراس، بمبئی، یوپی، بہار سی پی، برار، آسام، اوڑیسہ اور صوبہ سرحد کے اکثر نمائندگان پہلے ہی نیا آئین بنانے کا کام شروع کرچکے ہیں۔ ان کے علاوہ دہلی، اجمیر، میواڑہ اور کورگھ کے نمائندے بھی اس کام میں شامل ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ-جس میں بنگال، پنجاب، سندھ اور برطانوی بلوچستان کے نمائندوں کی اکثریت شامل ہے- نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہ کی جائے۔
۳۔ حکومت برطانیہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اقتدار ہندستانی عوام کے منشا کے مطابق منتقل کیاجائے۔ یہ نہایت خوش اسلوبی ساتھ طے پاسکتاتھا اگر ہندستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت ہوتی۔ ایسی مفاہمت کی عدم موجودگی میں ہندستان کے عوام کی رائے معلوم کرنے کی ذمے داری حکومت برطانیہ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ ہندستان کے لیڈروں سے پوری طرح مشورہ کرنے کے بعد حکومت برطانیہ نے مندرجہ ذیل منصوبہ تیار کیا ہے۔ حکومت برطانیہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ وہ ہندستان کے لیے کوئی آئین تیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ کام ہندستانیوں کو خود کرنا ہو گا۔ نہ ہی اس منصوبے میں کوئی ایسی شے ہے، جس کی رو سے ہندستان کو متحد رکھنے کے لیے فرقوں کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں مانع ہو۔
تصفیہ طلب امور:
۴۔ ملک معظم کی حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ موجودہ آئین ساز اسمبلی کے کام میں رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ اب جب کہ درج ذیل صوبوں کے لیے خاص انتظام کر دیا گیا ہے، ملک معظم کی حکومت کو اعتماد ہے کہ اس اعلان کے نتیجے میں ان صوبوں کے مسلم لیگی نمائندے بھی آئین سازی کے کام میں حصہ لیں گے۔ ان کے نمائندوں کی اکثریت پہلے ہی آئین سازی کا کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ اس آئین ساز اسمبلی کا وضع کردہ آئین ملک کے ان حصوں پر لاگو نہیں ہوسکے گا، جو اسے قبول کرنے کے لیے رضا مند نہ ہوں گے۔ ملک معظم کی حکومت کو اطمینان ہے کہ جس طریق کار کا خاکہ ذیل میں دیا گیا ہے، ان علاقوں کے عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے بہترین ہے، اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے، آیا ان کے لیے آئین:
(اے) موجودہ آئین ساز اسمبلی تشکیل دے، یا
(بی) ایک نئی علاحدہ آئین ساز اسمبلی بنائے، جس میں ان علاقوں کے نمائندے شامل ہوں گے، جنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کہ وہ موجودہ آئین ساز اسمبلی میں حصہ نہیں لیں گے۔
جب یہ طے پا جائے گا، تو ایسے ادارے، یا اداروں کا تعین ممکن ہو جائے گا، جن کو اقتدار منتقل کیا جائے۔
بنگال اور پنجاب:
۵۔ پنجاب اور بنگال ہر ایک کی صوبائی اسمبلی(ان میں یورپین ممبر شامل نہیں ہوں گے) سے کہا جائے گا کہ وہ دو حصوں میں اکٹھی ہوں، ان میں سے ایک کا حصہ مسلم اکثریتی اضلاع کے نمائندوں پر مشتمل ہو گا، جب کہ دوسرے حصے میں باقی تمام اضلاع کے نمائندے ہوں گے۔ اضلاع کی آبادی کے تعین کے لیے 1941ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار فیصلہ کن تصور ہوں گے۔ ان دونوں صوبوں کے مسلم اکثریتی اضلاع،اعلان نامہ کے ضمیمہ میں درج ہیں۔
۶۔ ہر ایک قانون ساز ادارے کے دونوں حصوں کے ممبران-جن کے علاحدہ علاحدہ اجلاس ہوں گے- کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ آیا صوبے کو تقسیم کیا جائے، یا نہیں۔ اگر ہر حصے کی سادہ اکثریت تقسیم کے حق میں فیصلہ کرتی ہے، تو صوبے کو تقسیم کر دیا جائے اور اس مقصد کے لیے انتظامات کر دیے جائیں گے۔
۷۔ تقسیم کے مسئلے پر فیصلہ کرنے سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ہر حصے کے نمائندوں کو پہلے ہی یہ معلوم ہو کہ اگر دونوں حصے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کریں گے، تو کون سی آئین ساز اسمبلی میں پورے صوبہ کو شریک ہونا ہوگا۔ اس لیے اگر کسی قانون ساز ادارے کا کوئی ممبر یہ مطالبہ کرتے ہیں، تو اس صورت میں قانون ساز اسمبلی کے تمام ممبروں کا اجلاس منعقد ہوگا (اس میں یورپین ممبر شامل نہیں ہوں گے) اس اجلاس میں اس مسئلے پر فیصلہ ہوگا کہ اگر صوبے کے دونوں حصے متحد رہنے کا فیصلہ کریں، تو سارا صوبہ کون سی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہوگا۔
۸۔ اگر فیصلہ تقسیم کے حق میں ہو، تو قانون ساز اسمبلی کا ہر حصہ ان علاقوں کی طرف سے -جن کی وہ نمائندگی کرتا ہے- فیصلہ کرے گا کہ پیراگراف نمبر ۴ درج بالا کے کون سے، متبادل کو وہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔
۹۔ اگر تقسیم کے مسئلے کا فوری فیصلہ مقصود ہو،تو اس صورت میں بنگال اور پنجاب کی قانون ساز اسمبلیوں کے ممبر ان دو حصوں میں اجلاس منعقد کرلیں۔ ان اجلاسوں میں مسلم اکثریتی اضلاع اور غیر مسلم اکثریتی اضلاع کے ممبران شامل ہوں گے۔ (مسلم اکثریتی اضلاع کی تفصیل ضمیمہ میں دی گئی ہے) یہ عارضی نوعیت کا ابتدائی اقدام ہے، ظاہر ہے کہ صوبوں کی حتمی تقسیم کے لیے سرحدات کے تعین کے لیے تفصیلی چھان پھٹک کی ضرورت ہے اور جوں ہی کسی صوبے کے تقسیم کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا، گورنر جنرل حد بندی کمیشن مقرر کریں گے، اس کے اراکین اور دائرہئ کار کے بارے میں تعیین متعلقہ فریقوں کے مشورے سے کیا جائے گا۔ کمیشن کو ہدایت دی جائے گی کہ پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحدات کا تعین اس بنیاد پر کرے کہ کون کون سا متصل علاقوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت آباد ہے۔ اس طرح کی ہدایات بنگال کی حد بندی کمیشن کو بھی ہوں گی۔ جب تک حد بندی کمیشن کی رپورٹ نافذ العمل نہیں ہوتی، جب تک عارضی سرحدات-جن کی تصریح ضمیمہ میں کی گئی ہے- نافذ العمل ہوں گی۔
سندھ
۰۱۔ سندھ قانون ساز اسمبلی کا خاص اجلاس (جس میں یورپین ممبر شامل نہیں ہوں گے) منعقد ہوگا، جس میں پیرا گراف نمبر ۴ بالا میں درج متبادلات میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرے گا۔
صوبہ سرحد:
۱۱۔ شمالی مغربی سرحدی صوبے کی صورت حال استثنائی ہے۔ اس کے تین میں سے دو ممبران آئین ساز اسمبلی موجودہ اسمبلی میں شریک ہو رہے ہیں۔ اگر سارا، یا پنجاب کا کوئی حصہ موجودہ آئین ساز اسمبلی میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، تو جغرافیائی محل وقوع، نیز دیگر وجوہات کی بنا پر اسے اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔ چنانچہ اس صورت میں شمال مغربی سرحدی صوبے کی موجودہ صوبائی اسمبلی کی فہرست رائے دہندگان کی بنیاد پرریفرینڈم کرایا جائے گا، تاکہ عوام پیرا گراف نمبر۴ میں مذکور متبادلات میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرسکیں۔ ریفرنڈم گورنر جنرل کی نگرانی میں ہوگا اور صوبائی حکومت سے مشورہ کیا جائے گا۔
برطانوی بلوچستان
۲۱۔ برطانوی بلوچستان نے آئین ساز اسمبلی کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہوا ہے، لیکن وہ موجودہ آئین ساز اسمبلی میں شریک نہیں ہوتا۔ صوبے کے جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر اس صوبے کو بھی اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کا موقع ملنا چاہیے، تا کہ پیراگراف نمبر ۴ میں مندرج متبادلات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔ گورنر جنرل غور کر رہے ہیں کہ اس کی بہترین صورت کیا ہو سکتی ہے۔
۳۱۔ اگرچہ آسام زیادہ تر غیرمسلم غلبے کا صوبہ ہے، لیکن اس کا ضلع سلہٹ- جو کہ بنگال سے متصل ہے- میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کہ اگر بنگال تقسیم ہوتا ہے، تو سلہٹ کو بنگال کے مسلم حصے میں مدغم کیا جائے۔ چنانچہ اگر بنگال کو تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے، تو ضلع سلہٹ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس کی نگرانی گورنر جنرل کریں گے اور وہ صوبائی حکومت سے مشورہ کریں گے۔ ریفرنڈم اس مسئلے پر ہوگا آیا ضلع سلہٹ صوبہ آسام میں حسب سابق شامل رہے، یا اگر مشرقی بنگال کا صوبہ رضا مند ہو، تو اس میں مدغم کر دیا جائے۔ اگر ریفرنڈم کے نتائج مشرقی بنگال میں ادغام کے حق میں برآمد ہوتے ہیں، تو ایک حد بندی کمیشن قائم کیا جائے گا، جس کے فرائض اور اختیارات پنجاب اور بنگال کے حد بندی کمیشن جیسے ہوں گے۔ یہ کمیشن ضلع سلہٹ اور اس سے ملحقہ اضلاع-جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے- کی حد بندی کرے گا۔ یہ علاقے مشرقی بنگال میں شامل کر دیے جائیں گے۔ آسام کا باقی صوبہ ہر حال میں موجودہ آئین ساز اسمبلی کی کارروائیوں میں حصہ لیتا رہے گا۔
اسمبلیوں میں نمائندگی:
۴۱۔ اگر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا جائے، تو اپنے نمائندے چننے کے لیے نئے الیکشن کرانا ضروری ہوگا۔ یہ انتخاب اس اصول کی بنا پر ہوں گے، جس کا تذکرہ کا بینہ مشن منصوبہ16/مئی 1946ء میں موجود ہے، یعنی دس لاکھ کی آبادی کا ایک نمائندہ۔ اگر سلہٹ مشرقی بنگال میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہاں بھی اسی قسم کے انتخاب ہوں گے۔
ہر علاقے کو مندرجہ ذیل تعداد میں نمائندے چننے کا حق حاصل ہوگا۔
صوبہ جنرل سیٹ , مسلم سیٹ , سکھ سیٹ , میزان
ضلع سلہٹ 1 , 2 , 0 , 3
مغربی بنگال 15, 4 , 0 , 19
مشرقی بنگال 12 , 29 , 0 , 41
مغربی پنجاب 3 , 12, 2 , 17
مشرقی پنجاب 6 , 4 , 2 , 12
۵۱۔ انتخاب میں تفویض کیے گئے اختیار کی روشنی میں مختلف علاقوں کے نمائندگان، یا تو موجودہ آئین ساز اسمبلی میں شریک ہوں گے، یا نئی آئین ساز اسمبلی قائم کریں گے۔
انتظامی امور:
۶۱۔ تقسیم کی صورت میں جو انتظامی امور سامنے آئیں گے، ان کا فیصلہ کرنے کے لیے جلد از جلد مذاکرات کیے جائیں گے۔
(اے) (یہ بات چیت) مختلف جانشین حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان ہوگی اور اس میں ان تمام محکموں کا مسئلہ زیر غور آئے گا، جو اس وقت مرکزی حکومت کی تحویل میں ہیں۔ ان میں دفاع، مالیات اور مواصلات کے شعبہ جات بھی شامل ہیں۔
(بی) ملک معظم کی حکومت اور جانشین حکومتوں کے درمیان انتقال اقتدار سے پیدا شدہ امور کے بارے میں معاہدات کے لیے۔
(سی) اگر صوبوں کو تقسیم کیا جاتا ہے، تو اس صورت میں تمام صوبائی امور، اثاثہ جات اور قرضوں کی تقسیم، پولیس اور دوسرے ملازمین، ہائی کورٹس اور صوبائی ادارے وغیرہ پر گفتگو ہوگی۔
شمالی مغربی سرحدی صوبے کے قبائل:
۷۱۔ ہندستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع قبائل کے ساتھ متعلقہ جانشین حکومت معاہدوں کے لیے گفتگو کرے گی۔
ریاستیں:
۸۱۔ حکومت برطانیہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ جن فیصلوں کا اعلان اوپر کیا گیا ہے، ان کا تعلق صرف برطانوی ہندستان کے ساتھ ہے اور ہندستانی ریاستوں کے بارے میں حکومت کی پالیسی وہی ہے، جس کا ذکر کا بینہ مشن میمورنڈم 12/مئی 1946 ء میں کیا گیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
کام کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت:
۹۱۔ یہ بہت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا کار روائیاں ممکنہ حد تک جلد پایہئ تکمیل تک پہنچ جائیں، تاکہ جانشین حکومتوں کو اقتدار سنبھالنے کے سلسلے میں تیاریاں مکمل کرنے کا وقت مل جائے۔ تاخیر سے بچنے کے لیے مختلف صوبے، یا صوبوں کے حصے ممکنہ حد تک آزادانہ طور پر کام شروع کر دیں گے اور پلان میں درج شرائط کو ملحوظ رکھیں۔ موجودہ آئین ساز اسمبلی اور نئی آئین ساز اسمبلی (اگر بنائی گئی)، اپنے اپنے علاقوں کے لیے دساتیر بنائیں گی، اپنے لیے قواعد وضوابط بنانے کی انھیں مکمل آزادی ہوگی۔
فوری انتقال اقتدار:
۰۲۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے بار بار اس خواہش پر زور دیا ہے کہ ہندستان میں اقتدار ممکنہ حد تک جلد منتقل کر دیا جائے۔ حکومت برطانیہ کو ہندستان کی اس خواہش سے بڑی ہمدردی ہے اور وہ یہ کام جون 1948ء سے ہی پہلے کرنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ انتقال اقتدار کے سلسلے میں آزاد ہندستانی حکومت، یا حکومتیں قائم کر دی جائیں اور انھیں مقررہ مدت سے پہلے اقتدار سونپ دیا جائے۔ چنانچہ اس خواہش کو بہت جلد عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ہی قابل عمل طریقہ ہے کہ حکومت برطانیہ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں مسودہ قانون پیش کرے، جس میں ڈومینین اسٹیٹس کی بنیاد پر ایک، یا دو جانشین حکومتوں کو اقتداراسی برس منتقل کر دیا جائے۔ اس سے قانون ساز اسمبلیوں کے اختیارات متأثر نہیں ہوتے کہ وہ اپنے ماتحت ہندستان کے حصے کے بارے میں فیصلہ کریں، آیا یہ برطانوی دولت مشترکہ میں شامل رہے گا، یا نہیں؟
مزید اعلانات گورنر جنرل کرے گا:
۱۲۔ گورنر جنرل وقتا فوقتا ایسے مزید اعلانات کریں گے، جو مندرجہ بالا تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہوں گے۔ ان کا تعلق طریق کار سے ہو، یا دوسرے معاملات سے۔
اپنڈیکس:
1941ء کی مردم شماری کی روشنی میں بنگال اور پنجاب کے مسلم اکثریتی اضلاع
ا۔ بنگال: چٹا گانگ ڈویژن: چٹا گانگ، نواکھالی، پٹرا۔
ڈھاکہ ڈویژن: با قر گنج، ڈھا کہ، فرید پور، میمن سنگھ۔
پریذیڈنسی ڈویژن: جیسور، مرشد آباد، ندیا۔
راج شاہی ڈویژن: بوگرا، دیناج پور، مالدھ، پینہ، راج شاہی، رنگ پور
۲۔ پنجاب: لاہور ڈویژن: گوجرانوالہ، گورداس پور، لاہور، شیخو پورہ، سیال کوٹ۔
راول پنڈی ڈویژن: اٹک، گجرات، جہلم، میانوالی، راول پنڈی، شاہ پور۔
ملتان ڈویژن: ڈیرہ غازی خان، جھنگ، لائل پور، منٹمگری، ملتان، مظفر گڑھ۔
(تحریک پاکستان اور انتقال اقتدار، ص/697-703)
بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلدچہارم، ص/428-435)
لمبی بحث و گفتگو کے بعد ہر شخص نے اسے منظور کرلیا۔اور3/جون 1947ء کی صبح دس بجے تقسیم ہند کے اس پلان پر دستخط کردیے۔
مجنونانہ فیصلہ
تقسیم پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے بعد ماونٹ بیٹن نے فورا ذاتی تبصرہ لکھا کہ:
”اس مجنونانہ فیصلے کی ذمہ داری دنیا کی نگاہوں میں پورے طور پر ہندستانیوں پر ڈالی جانی چاہیے۔ ایک دن وہ اس فیصلے پر جو وہ عن قریب لینے والے ہیں، خود کف افسوس ملیں گے۔“
(ہندستان اپنے حصار میں، ص/29۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/435)