اردو ہے جس کا نام ۔۔۔از قلم مدثر احمد شیموگہ ۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اردو کو غیر ملکی زبان قرار دینے سے صاف انکار کیا اور واضح کیا کہ اردو اس ملک کی اپنی زبان ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص اردو زبان کو اختیار کرنے یا اسے استعمال کرنے سے نہیں روک سکتا۔ یہ فیصلہ اردو کے تئیں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے مثبت رویے کی عکاسی کرتا ہے اور اس زبان کی تاریخی، ثقافتی اور سماجی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایک طرف جہاں عدالتیں اردو کی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہیں، وہیں اردو بولنے اور لکھنے والے خود اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اردو کی ترقی و بقاء کے لیے ٹھوس اقدامات کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔اردو زبان، جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے، اپنی شاعری، ادب، اور خوبصورت اسلوب کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ لیکن آج اس کی حالت زبوں حالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اردو اکیڈمیوں اور تنظیموں کا زور زیادہ تر روایتی مشاعروں اور سمیناروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ پروگرام اگرچہ اہم ہیں، لیکن یہ اردو کو عام کرنے اور اس کی ترقی کے لیے ناکافی ہیں۔ ہر سال نومبر میں "اردو دن” یا اس طرح کے دیگر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، لیکن سال کے باقی گیارہ مہینوں میں اردو کے فروغ کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش نظر نہیں آتی۔یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبوں کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ طلباء کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ جن یونیورسٹیوں میں طلباء اردو پڑھنا چاہتے ہیں، وہاں اکثر مناسب وسائل یا اساتذہ کی کمی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، بہت سے طلباء کی مالی استطاعت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ ان یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں جہاں اردو کی تعلیم بہتر انداز میں دی جاتی ہے۔ نتیجتاً، اردو کی تعلیم کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔اردو کے فروغ کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کی عصری اہمیت کو برقرار رکھنا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں انگریزی اور دیگر علاقائی زبانیں ٹیکنالوجی اور روزگار کے مواقع کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، اردو کو پس پشت ڈال دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا، ویب سائٹس، اور ایپس پر اردو مواد کی کمی اسے نوجوان نسل سے دور کر رہی ہے۔ اگرچہ کچھ ویب سائٹس اور ایپس اردو میں مواد فراہم کرتی ہیں، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔اردو کی ترقی و بقاء کے لیے چند ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، اردو کو تعلیمی نصاب میں زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اس کی تدریس کے لیے جدید طریقوں کو اپنایا جائے۔ دوسرا، اردو کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر فروغ دینے کے لیے ویب سائٹس، ایپس، اور آن لائن کورسز تیار کیے جائیں۔ تیسرا، اردو ادب کو ترجمہ کے ذریعے دیگر زبانوں تک پہنچایا جائے تاکہ اس کی عالمی سطح پر پذیرائی بڑھے۔مزید برآں، اردو تنظیموں کو روایتی پروگراموں سے ہٹ کر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، اردو کے طلباء کے لیے وظائف اور مالی امداد کے پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اردو کے اساتذہ کی تربیت اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔اردو ہماری ثقافتی وراثت کا ایک اہم حصہ ہے، اور اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اردو کے لیے ایک نئی امید کی کرن لے کر آیا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس زبان کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ اسے نئی بلندیوں تک پہنچائیں۔ اگر ہم آج اس کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کر سکے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔